باجوڑ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے تدارک کیلئے صدیوں پرانی روایت کا استعمال

ASH-1.png
شاہ خالد شاہ جی
ضلع باجوڑ  کے مرکزی تحصیل خار کے دورافتادہ گاؤں بتائی علیزو کے 60 سالہ  قبائلی رہنماء ملک محمدآیاز علیزئی کے علاقے میں کئی سال پہلے تک گھنے جنگلات ہوتے تھے لیکن وقت کے ساتھ اُن کی بے دریغ کٹائی سے علاقے کا نہ صرف رونق ماند پڑگیا تھا بلکہ درجہ حرارت میں اضافہ،پانی کی کمی اور چاراگاہوں کے خاتمےکا سبب بھی بنا تھا ۔اُنہوں نے کہاکہ اس صورتحال کو دیکھ کر گاؤں کے لوگوں نے جنگلات کے بچاؤ کے لئے صدیوں پرانی روایت "ناغہ "کو زندہ کرنے کے لئے مجبور ہوگئے۔
اُن کے بقول گاؤں کے عمائدین کے موجودگی میں علاقے کے عوام کے بڑے مجمعے میں  متفقہ طور پر تیس سال پہلے فیصلہ کیا تھا کہ جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی ہوگی اور  کمیٹی  کی اجازت کے بغیر کسی کو  درخت  سے  ایک شاخ بھی کاٹنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ اس متفقہ پابندی کو قبائلی روایت میں "ناغہ” کہتے ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو قبائلی روایات کے مطابق سزا دی جاتی ہے ۔ علیزئی  گاؤں میں آج بھی یہ ایک مضبوط  روایت ہے جس کی پیروی علاقے میں ہر کوئی کر رہا ہے۔
ناغہ کی تنظیمی ساخت
ملک ایاز نے کہا کہ گاوں کے عمائدین نے علاقے کی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے  جس کے ارکان کی تعداد 4 سے لیکر 6 تک ہوتی ہے  اس میں مشران کے علاوہ  نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں۔ علاقے کے مشران ہر 3 سال بعد کمیٹی کے کام کا  جائزہ لیا جاتا ہے اور کمیٹی کے ارکان  میں ردوبدل  بھی کیا جاتا ہے۔جب کسی مقامی شخص کو لکڑی کی ضرورت ہو تو وہ کمیٹی سے رابطہ کرتا ہے۔
مکمل چھان بین کے بعد کمیٹی کو اختیار دیا گیا ہےکہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ اس شخص کو درختوں کی کٹائی کی اجازت دیں یا اس کی درخواست کو مسترد کر دیں۔ لیکن پچھلے چند سالوں سے  درجہ حرارت میں  اضافہ کی وجہ سے جنگلات کی اہمیت بڑھ گئی ہےاورہر قسم کے درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی ہےتاہم صرف مسجد و مدرسے کے تعمیر وغیرہ کے لئے لکڑی کاٹنے کی اجازت ہے۔
ناغہ کے خلاف ورزی  کرنے والے  کو کیا سزا ملتی ہے؟

ملک ایاز کا  کہنا تھا کہ "ناغہ”کی خلاف ورزی پر متعدد افراد کو جرمانے کیے گئے ہیں۔”اگر کوئی درخت کی ایک شاخ بھی کاٹتا ہے تو گاؤں کی کمیٹی 15  ہزار سے لیکر  30 ہزار  روپے تک جرمانہ وصول کرتی ہے”۔ جرمانہ  کی مد میں جو رقم حاصل ہوتی ہے وہ  کمیٹی اپنی پاس جمع کرتی ہے اور پھر اس پر گاؤں  کے لوگوںکے لئے کوئی اجتماعی کام کیا جاتا ہے۔جرمانہ کی سخت اصول کی وجہ سے اب کوئی بھی”ناغہ” کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں کرتا۔

علیزو بتائی کے ایک اور رہائشی حاجی سید باچا نے کہا کہ وہ اب اپنے پہاڑ سے لکڑیاں حاصل نہیں کر سکتے اور اب وہ لکڑی  منڈیوں سے خریدتے ہیں کیونکہ "ناغہ” کے تحت کمیٹی کی طرف سے لکڑی کاٹنے پر سخت پابندی ہے۔ لیکن انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے گاؤں میں "ناغہ” کی روایت پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔”ناغہ” نہ صرف ہمارے جنگلات کی حفاظت کرتا ہے بلکہ علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ باعث بن گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی  منفی اثرات کی کمی میں کردار

ملک ایاز موسمیاتی تبدیلیوں سے لاعلم ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سالوں سے بارشیں کم ہوئی ہیں یا بے وقت ہوتی ہے جس سے کبھی  خشک سالی کی صورتحال ہوتی ہے اور کبھی زیادہ پیمانے پر سیلاب  آتے ہیں۔لیکن ہمارے گاؤں میں  قدرتی چشمے بھی  ابھی تک موجود ہے اور زمینی کٹاؤ بھینہ ہونے کی برابر ہیں۔

باجوڑ کے ممتاز  ماہر تعلیم  اور  قبائلی روایات پر گہری نظر رکھنے والا محقق  65 سالہ آزاد بخت نے "ناغہ” کے حوالے سے بتایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو ان کے گاؤں گنداؤ تحصیل اتمانخیل  کے پہاڑ پر نہ صرف  جنگلات کے درختوں کے کٹائی پر پابندی (ناغہ) تھی بلکہ گھاس  کے کاٹنے  اور ان میں مویشیوں کے چرانے پر بھی "ناغہ” ہوتا تھا جس کا دورانیہ موسم کے لحاظ سے مختلف ہوتا تھا۔
” اگر کوئی اس گھاس میں بھیڑ بکری چراتا تھا تو اس سے مرغی جرمانے میں لیا جاتا تھا اور اگر کوئی گائے چراتا تھا  تو اس سے بکری لیتا تھا۔ اس وجہ سے ہر کوئی ناغہ کا احترام کرتا تھا”۔جب گھاس خوب اگتا تھا تو پھر گاؤں کے مشران اس کو آپس میں  حصوں میں تقسیم کرتا تھا اور ہر ایک  اپنے حصے سے پھر  گھاس کاٹتا تھا ۔ناغہ سے نہ صرف  جنگلات  محفوظ ہوتے تھے اور اس میں نئے پودے اگتے تھے  بلکہ اس روایت سے ان کے گاؤں میں  لائیوسٹاک  اور جنگل میں جنگلی حیات میں بھی
اضافہ ہوا تھا۔
"ناغہ "روایت کے  کمزور  ہونے سے  ماحولیات پر  منفی اثرات
ضلع باجوڑ کے دوسرے گنجان آباد تحصیل ماموند کے گاؤں کیٹکوٹ کے رہائشی عبدالحلیم نے اپنے گاؤں کی پہاڑ پر پرانے زمانے کے جنگل کا ذکر کرتے ہوئے افسردہ ہوئے کیونکہ ان کے بقول  پہلے ان کے گاؤں کے پہاڑ پر  گھنا جنگل تھا  لیکن  اس کے کاٹنے پر پابندی نہ ہونے  کی وجہ سے  اب لوگوں نے اسے بے رحمی سے کاٹ دیا ہے جس کی وجہ سے اب پہاڑ بنجر میدان لگتا ہے جس نے گاؤں کی خوبصورتی کو داغدار کر دیا ہے۔جنگلات کے خاتمے کے ساتھ ہی پہاڑوں میں قدرتی
چشمے بھی اب خشک ہوئے گئے ہیں۔
عبدالحلیم نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں پہاڑوں پر موجود جنگلات کی وہ "ناغہ ” ذریعے حفاظت کرتے تھے۔ان سے ہمیں بڑاجنگل وراثت میں ملا  تھالیکن نئی نسل نے اس کا خیال نہیں رکھا ۔اب اس کا تدارک ممکن نہیں۔ اگر اب بھی قوم اپنی قبائلی روایت "ناغہ” کو دوبارہ قائم کریں اور اس پر سختی سے عمل کرے  تو اس سے جنگلات کی  بے جا کٹائی روک جائے گی جو ہمیں جنگلات کی نعمتوں سے محروم کرتی ہے۔
آزاد کے بقول جب ” ناغہ” کی روایت کمزور ہوگئی تو آہستہ آہستہ جنگل ختم ہوگئی اور اب ہمارا گاؤں  موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے زد میں ہے، ایک طرف مویشیوں  کے لئے مناسب چارہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کی  تعداد  میں خاطر خواہ  کمی ہوئی ہے  ۔ تو دوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوا ہے جو کہ تشویش ناک امر ہے۔
باجوڑ میں جنگلات کا رقبہ

 ضلع باجوڑ کا کل رقبہ 1,290 مربع کلومیٹرہے جس میں باجوڑ کے محکمہ جنگلات نے 470,000 ایکڑ پر جنگلات لگائے ہیں۔ اسی طرح 40 ہزار ایکڑ پر پہاڑ اور قدرتی جنگلات ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ باجوڑ کے سب  سے اونچی اور تاریخی پہاڑ کیمور ،برنگ ،ارنگ،علیزو بتائی، سالارزو باٹوار، ماموند کےبالائی علاقوںاور چارمنگ کے پہاڑی علاقوں میں قدرتی جنگلات ہیں موجود ہیں۔

 باجوڑ میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے محکمہ جنگلات ہر سال موسم بہار اور مون سون میں شجرکاری  مہم منعقد کرتے ہیں۔ جس میں
محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے علاوہ عام لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد  جنگلات کے رقبے  میں مزید اضافہ کرنا ہے۔
ملک ایاز نے کہا کہ حکومت تو جنگلات کے تحفظ کے لیے کوششیں کر رہی ہے لیکن اسے عوام کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔حکومت عوام کے تعاون کے بغیر جنگلات کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا نہ صرف باجوڑ بلکہ  پوری پاکستان کے عوام بھی "ناغہ” کی روایت کو اپناتے ہوئے جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنائیں ا اور جس طرح ہمارے گاؤں کے لوگوں  نے جنگل  سے اپنے پہاڑ کو  سرسبز بنایا ہے  اسی طرح  وہ  بھی اپنے علاقے کو جنگلات کی دولت سے مالا مال کریں اور علاقے کو خوبصورت بنائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top