سعدیہ بی بی
پاکستان میں ہر سال نئے بجٹ کا اعلان کیا جاتا ہے اور ہر خاص و عام سے بلواسطہ اور بلا واسطہ متاثر ہوتا ہے ۔ اج میں ان چند اہم سوالوں کے جواب تلاش کروں گی کہ یہ بجٹ کیا ہے ؟ پاکستان میں یہ کیسے بنتا ہے ؟ اور اس میں کیا بہتری لائی جا سکتی ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات میں نے ایک خواجہ سرا سے کیے کہ ان کی نظر میں بجٹ کیا ہے ۔ ان کے خیال میں ایک خاص وقت میں امدن اور اخراجات کے تخمینے کو بجٹ کہا جاتا ہے ۔ حکومت کا بجٹ ایک مخصوص سال کے دوران اس کے ممکنہ اخراجات اور امدن کی تفصیلات بتاتا ہے ۔میرے خیال میں اس کو اسان الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ بجٹ وہ مالی منصوبہ بندی ہے جسے حکومت ٹیکس کی مد میں حاصل رقوم اور حکومتی اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سال کے لیے مرتب کرتی ہے ۔
پاکستان میں حکومت وقت آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار کرتی ہے اور کابینہ کی منظوری کے بعد اسے مجوزہ مالیاتی بل کی شکل میں قومی اسمبلی میں پیش کرتی ہے ۔ جہاں سے سادہ اکثریت سے پاس ہونے کے بعد صدر مملکت بجٹ کی منظوری دیتے ہیں ، جس کے بعد یہ ایک ایکٹ بن جاتا ہے ۔ پاکستان کا مالی سال یکم جولائی سے 30 جون تک ہوتا ہے اور یوں سالانہ بجٹ بھی اس عرصے میں ہونے والے اخراجات اور امدن کے اندازوں کا ذکر کرتا ہے ۔
خواجہ سرا مزید یہ بولتی ہیں کہ پاکستان میں سالانہ بجٹ کی تیاری وفاقی وزارت خزانہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ، جہاں فنانس ڈویژن میں قائم بجٹ ونگ یہ کام سر انجام دیتا ہے ۔ اکتوبر میں ائندہ مالی سال کے بجٹ پر کام شروع کر دیا جاتا تھا لیکن اب یہ کام جنوری میں شروع کر دیا جاتا ہے ۔ سالانہ بجٹ پلان کابینہ سے منظوری کے بعد وفاقی وزیر خزانہ عموما جون کے دوسرے ہفتے میں قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ جس کے کچھ ہفتوں بعد اسے منظور کر لیا جاتا ہے ۔
انہوں نے یہ تو بتا دیا کہ بجٹ کیا ہے اور پاکستان میں کیسے بنتا ہے ؟ لیکن وہ پاکستان کے پیش کردہ بجٹ سے متفق نہیں ہے ۔ انہوں نے اس سے متفق نہ ہونے کی وجہ بھی بتائی ہے کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کو ان کا حق نہیں دیا جا رہا ۔ بجٹ میں جتنا حق ان کا بنتا ہے ان تک پورا نہیں پہنچایا جا رہا ۔ بہت سے خواجہ سرا ایسے ہیں جو ارگنائزیشن چلاتے ہیں اور ان کے لیے فنڈز بھی مختص کیے جاتے ہیں لیکن وہ ان تک نہیں پہنچتے اور اگر ہم کوئی سوال کر دیں تو ہمیں نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن حق نہیں دیا جاتا ۔ وہ پاکستان کے بجٹ کے بارے میں مزید یہ بولتی ہیں کہ پاکستان میں بجٹ بنانے کے عمل میں زیادہ توجہ اثاثوں ( کتنے روپے مختص ہوئے ) اور پیداوار ( کتنے سکول یا کتنی کلومیٹر سڑک بنے گی ) پر دی جاتی ہے نہ کہ نتائج یا سارے عمل کے اعلی معیار پر ۔ پاکستان میں بجٹ بنانے کے عمل میں پارلیمنٹ کی راہ میں اہم رکاوٹیں مثلا وقت کی کمی قائمہ کمیٹیوں کی عدم شمولیت اور پارلیمنٹ کے ادارے میں تحقیق کی استعداد کا فقدان ہے ۔
قومی اسمبلی کی مجموعی طور پر 41 قائمہ کمیٹیاں ہیں جبکہ سینٹ کمیٹیوں کی تعداد 28 ہے لیکن بجٹ تجاویز کسی بھی کمیٹی کے سامنے نہیں رکھی جاتی۔ بجٹ بنانے کے عمل میں پارلیمنٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ فاننس کی قائمہ کمیٹی اور کابینہ کو بھی بہت دیر سے مجوزہ بجٹ کی معلومات دی جاتی ہے ۔ بجٹ کے پاس کرنے میں سینٹ کا کردار بہت محدود ہے ، جہاں بجٹ پر بحث بھی ہوتی ہے اور تجاویز بھی دی جاتی ہیں ۔ تا ہم حکومت ان پر عمل درامد کی پابند نہیں ہوتی ۔ اسی لیے وہ پاکستان کے پیش کردہ بجٹ سے متفق نہیں ۔
میرے اور ان کے خیال کے مطابق بجٹ میں بہتری کے لیے بجٹ سازی کا عمل شفاف ، شراکت پر مبنی ، ذمہ دار اور عوام اور ریاست کی ضروریات کے مطابق ہونا چاہیے ۔ بجٹ میں خواجہ سراؤں کو ان کے حق کے مطابق مہیا کرنا چاہیے اور جو فنڈز ان کے لیے مختص کیے جاتے ہیں وہ ان تک ضرور پہنچائے جائیں ۔ ( پاکستان میں ) یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے وسیع تر ادارتی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہے اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں