عبداللہ ہود
افغانستان کے لیے امریکی امداد کی نگرانی کرنے والے ادارے سیگار کے چیف انسپکٹر جان سوپکو نے کہا کہ طالبان کو امریکہ طرف سے ملنے والے امدادی رقم کا زیادہ طالبان اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کررہاہے۔
جان سوپکو کا کہنا ہے کہ افغانستان کو انسانی بحران کا سامنا ہے لیکن ملک سے امریکی افواج کے انخلا کے دو سال بعد بھی امریکا افغانوں کو سب سے بڑا عطیہ دینے والا ملک ہے۔جان سوپکو نے منگل کو امریکی کانگریس کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ طالبان امدادی منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے رقم مانگ رہے ہیں اور طالبان یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ امداد ی رقم کس کو ملتی ہے۔ طالبان اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ منصوبوں میں اُن کے ہم اپنے لوگ، رشتہ دار اور دیگر افراد کو بھرتی کیاجائے۔ سیگار کے رپورٹ کے مطابق طالبان اقوام متحدہ اور دیگر این جی اوز کو مختلف طریقوں سے مجبور کیاجاتاہے کہ اُن کے مرضی کے مطابق وہ ان کمپنیوں کے سا تھ معاہدے کریں تاکہ اُن کو مالی فائدہ حاصل ہوسکے۔
سیگار نے اپنے رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسے اطلاعات اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ طالبان نے ٹیکسوں، عوام سے دیگرحصوں سمت اوردیگر اخراجات کے نام پر کچھ اداروں اور کمپنیوں سے 10 ملین ڈالر سے زائد وصول کی جاچکے ہیں جبکہ دوسری جانب افغانستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس بات پر بھی پریشان کہ زیادہ تر غیر ملکی امداد ایسے لوگوں کو نوکری اور مدد فراہم کررہاہے جو طالبان کی حکومت کے قریب ہیں۔
ننگرہار کے ایک غریب مزدور نے دی پشاور پوسٹ کوبتایاکہ ہم سارا دن سخت محنت کرکے گزرا کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ وہ سڑک کے تعمیر میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ کام کررہاہے اور بمشکل سے اپنے گھر کے اخرجات پوری کرتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق امریکہ نے گزشتہ دو سالوں میں دو ارب ڈالر سے زیادہ مالی مدد فراہم کیا۔ سیگار کے بقول گیارہ جائزوں میں ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تیس ملین ڈالر کے بارے میں شکوک وشہات کی تحقیقات کی ضرورت ہے
طالبان حکومت نے ابھی تک سیگار کی رپورٹ کے بارے میں اب تک میڈیا کو کچھ نہیں کیاگیا ہے۔