عبداللہ ہود
افغانستان کے مشرقی صوبے صوبہ ننگرہار میں طالبان کے انٹیلی جنس اداروں نے کلید ریڈیو دو صحافی فقیر محمد فقیر زئی اور جان آغا صالح کو ان کے دفتر سے اٹھا لیا ہے۔
ننگرہار کے مقامی سکیورٹی حکام نے ابھی تک ان صحافیوں کی گرفتاری کے بارے میں میڈیا کو کچھ نہیں بتایا۔
ننگرہار میں ایک مقامی صحافی نے نام نہ بتانے کے شرط پر دی پشاور پوسٹ کو بتایاکہ بیان کے آزادی کے خلاف دن بدن دائر تنگ کیا جارہاہے اور صحافیوں کے جان کو پہلے کے نسبت خطرات بڑھ چکے ہیں۔ اُن کے بقول نہپہلے سے صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا تھا اور اُن کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی د ی جارہے تھی لیکن موجودہ وقت میں انٹیلی جنس اداروں کے طرف صحافیوں کے گرفتاریوں میں کافی اضافہ ہوچکاہے جوکہ انتہائی تشویش ناک ہے۔
دوسری جانب واقعے کے حوالے سے افغانستان کے صحافیوں کے مرکزی تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر افغان انٹیلی جنس حکام سے اُ ن کے دو ساتھیوں کے کا مطالبہ کیاہے۔افغان صحافیوں کے تنظیم نے موقف اپنایا کہ صحافیوں کے رپوٹینگ کے حوالے کسی بھی قسم کے شکایت کے قانون اور ادارے موجود ہے جن میں صحافتی خلاف ورزیوں کے خلاف کمیشن سے رجوع کرسکتے جوکہ کے ذریعے ان صحافیوں کے خلاف شکایت کی نگرانی کرتے ہیں۔
اس واقعے سے چند روز قبل قندھار صوبے میں امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں سے ملاقات میں پوری ملک میں صحافیوں کے ساتھ ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس کے باوجود بھی صحافیوں کے خلاف اقدامات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔
کلید ریڈیو نے اپنے دو صحافیوں کے گرفتاری کے حوالے سے کہاکہ ملک میں نشروشاعت کے قانون کے مطابق تمام اُمور کو آگے لے جایا جارہاہے اور اُن کے پوری ٹیم تمام صحافتی اصول و ملکی قانون کو مدنطر رکھ کراپنے فرائم انجام دیں رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ملک میں صحافیوں کے مسائل پیدا کی جارہے ہیں۔ ادارے نے حکومت سے ننگرہار میں اُن کے دوساتھیوں فقیر محمد فقیر زئی اور جان آغا صالح کو جلد از جلد رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔