یقین نہیں آرہاکہ اعجاز اور مسعود نے بہتر زندگی کے بدلے کیسے موت کوگلے لگالیا؟

-1.jpg

اسلام گل آفریدی

پشاور سے 15کلومیٹرمغرب میں واقع ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے25سالہ ساجد خان کے چھوٹے بھائی اعجاز احمد نے پچھلے سال اگست میں گاؤں کے ایک سکول سے میٹرک کا امتحان اچھی پوزیشن سے پاس کرنے کے بعد پشاور کے ایک نجی کالج میں سکالرشپ پر داخلہ لیا۔ گھر والوں کو اُن سے کافی اُمیدیں وابستہ تھیں کہ وہ پڑھ کر ڈاکٹر بنے گا لیکن ان کا خواب اُس وقت ادھورا رہ گیا جب پچھلے سال ستمبر میں اُنہوں نے اپنے بڑے بھائی ساجد کو کوئٹہ سے کال کرکے بتایا کہ وہ اپنے کزن مسعود اور دوسرے دوستوں کے ساتھ غیرقانونی طریقے سے ترکی کیلئے نکل چکے ہیں۔ اِس فیصلے نے گھر والوں کو ایک بڑی پریشانی میں مبتلا کر دیا کیونکہ اُنہوں نے کبھی اس بات کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ گھروں والوں نے اعجاز احمد کو واپس لانے کیلئے کافی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا۔

اعجاز اور مسعود نے سفر ی اخراجات کے لئے اپنے موبائل فونز بھیج دیئے تھے۔ ساجد خان نے کہا کہ اُن دنوں میں اور  میرا  والد صاحب دوستوں کے ساتھ سوات گئے ہوئے تھے اور جب واپس آئے تو ہمیں بتایا گیا کہ اعجاز غیر قانونی طریقے سے ایران چلاگیا ہے۔ اس خبر نے والد کو کافی افسردہ کردیا اور بہت کوشش کے باوجود بھی اعجازواپس آنے کے لئے تیار نہیں ہوا۔

اُنہوں نے بتایا کہ اعجاز اور مسعود ایجنٹ کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور وقتا فوقتا اُن سے معلومات حاصل کرتے رہے تاہم یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن تھا۔ ایران تک پہنچنے کے لئے ایک ہفتہ کی مدت درکارہوتاہے تاہم سفر کے دوران دونوں کونامعلوم افراد نے تاوان کے لئے اغوا کر لئے تھے جس کی رہائی کے لئے ایجنٹ کو پیسے بھیج دئیے گئے اور ایک ماہ میں تہران پہنچ گئے۔ اُن کے بقول چند ہفتے بعد دونوں ترکی پہنچ گئے اورواٹس اپ میسج پر بتایاکہ پشاور میں ایک صراف کے پاس 2،2لاکھ اور 10 ہزار روپے جمع کروائے جو ہم  نے کردئیے۔

21سالہ مسعود کے بڑے بھائی بشیر خان نے بتایا کہ دونوں ترکی میں کام کرکے اپنے اخراجات پورے کرتے رہے تاہم چھ مہینے بعد دونوں نے وہاں پرایک ایجنٹ کے ساتھ غیر قانونی طور پر اٹلی جانے کے لئے پیسوں پر بات کرلی اور گھر کال کرکے کہاکہ 50 بندوں کے ایک گروپ کے ساتھ وہ بلغاریہ کے راستے اٹلی جارہے ہیں۔ یہ سفر اپریل 2022کو شروع ہوا جبکہ ایجنٹ کے کہنے پر  ہم نےپشاور میں ایک صراف کے  ساتھ مزید5 ،5لاکھ روپے جمع کروائے۔

ترکی سے سفر شروع ہونے کے چھ دن بعد ساجد کو پتہ چلا کہ دونوں گروپ سے بچھڑ گئے ہیں تاہم رابطے پر ایجنٹ نے بتایاکہ اعجاز اور مسعود کی طبعیت ٹھیک نہیں اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ اُن کے دوستوں سے پتہ چلا کہ وہ دونوں ہسپتال میں نہیں ہیں۔ ساجد کا کہنا تھا کہ افغان تارکین وطن کے لئے بنائے گئے ایک فیس بک پیچ پر چار نوجوانوں کی تصاویر شیئر کی گئیں جوکہ بلغاریہ میں ہلاک ہوچکے تھے۔ ان میں مسعود اور اعجاز بھی شامل تھے۔ اُن کے بھائی کے بقول 18اپریل کو مسعود اور 25اپریل 2022کو اعجاز خان اپنی زندگی سے ہاتھ دو بیٹھے تھے۔

اعجاز کے ماموں اور مسعود کے چچا نواز خان آفریدی جوکہ لندن میں مقیم ہیں اپنے ایک دوست شوکت کے ساتھ رواں سال 22مئی کو بلغاریا چلے گئے  تاکہ وہاں  پر واقعہ کے بارے میں معلوم کرسکے۔ اُنہوں نے بتایاکہ وہاں پر ایک ایسے ادارے کے دفتر چلے گئے جو انسانی سمگلنگ کے ساتھ جڑے مسائل پر کام کررہے تھے تاہم اس حوالے سے اُن کے پاس کچھ معلومات موجود نہیں تھے لیکن انہوں نے ہم کو وہاں  سے ایک سرکاری   سرد خانہ لے گئے جہاں پر لاوراث لاشیں پڑی تھیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پچاس سے زائد لاشوں کو دیکھایا گیا لیکن اُن میں اعجاز اور مسعود موجود نہیں تھے۔

اگلے ہی روز نواز خان وہاں پر پاکستانی سفارتحانے چلے گئے لیکن وہاں پر بھی اعجاز اور مسعود کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ چونکہ مرنے کے بعد اُن کی تصاویر افغان سفارتحانے نے اپنے آفیشل فیس بک پر پوسٹ کیں تھیں ۔اس لیے اُن سے رابطہ کیا گیا تو عملے نے تصدیق کی کہ ان دونوں جوانوں کی موت ترکی سرحد کے قریب دیہی علاقے میں ہوئی اور وہاں پر ایک پولیس تھانے نے اس حوالے سے انہیں معلومات فراہم کردی تھیں۔نواز کے مطابق وہ اپنے دوست کے ساتھ اُس پولیس تھانے گیا اور وہاں پر ایک خاتون پولیس آفسر نے تھانے سے پانچ کلومیٹر دور ایک قبرستان لے گئی اور دونوں کی قبریں دکھائیں۔

پاکستان میں انسداد انسانی سمگلنگ کے لئے کارروائی کا اختیار صرف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو دیاگیا ہے اور ہر صوبے کے دفتر میں اس حوالے سے ایک الگ سیل قائم کیاگیا ہے۔ خیبر پختو نخوا کے ایف آئی اے دفتر میں ڈپٹی ڈائریکٹر محمد آفتاب بٹ انسداد انسانی سمگلنگ سیل کے سربراہ ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ لوگوں کو غیرقانونی طریقے سے باہر لے جانے والے ایجنٹس غریب اور مجبور افراد کو جھوٹ بول کر نہ صرف اُن کے پیسے ضائع کرتے ہیں بلکہ اپنے ہی پیسوں سے یہ لوگ موت خرید لیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایجنٹس غریب لوگوں کو راستے میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں اور اصل خطرات کے بارے میں بالکل کسی کو آگاہ نہیں کرتے ہیں۔

بشیر خان کاکہنا ہے کہ وہاں پر افغان سفارتخانے کے ایک اہلکار نے ہماری بہت مدد کی کیونکہ اُن کو اطلاع ملی تھی کہ بلغاریہ کے ایک جنگل میں چار افغان باشندوں کی لاشیں پڑی ہیں جو غیر قانونی طریقے سے اٹلی جارہے تھے۔ تاہم موسم کی شدت سے ان کی اموات واقع ہوچکی ہے۔ شبیر نے کہا کہ سب سے پہلے بھائی اور چچا کو اس واقعے کے بارے میں معلوم ہوا جبکہ ہم اس کوشش میں تھے کہ دونوں کی لاشیں پاکستان منتقل کرنے کے بعد گھر والوں کو بتائے لیکن کافی کوششوں کے باوجود ایسا ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ وہاں پر اُن کی تدفین ہوئی تھی اور لاشوں کی منتقلی کے لئے ایک مہینے سے زیادہ کامدت درکار تھا۔ اُن کے بقول واقع کے 25 دن گزر جانے کے بعد گھر والوں کو بتایا اور باقاعدہ طور پر علاقے میں ایک ہی جگہ مسعود اور اعجاز کی فاتح خوانی کے رسومات ادا کردئیے گئے۔

امجد علی (فرضی نام) غیر قانونی طور پر باہر لوگوں کو باہر بھیجنے کے کاروبار سے پچھلے دس سالوں سے وابستہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کے لئے سوشل میڈیا اور وٹس ایپ گروپس کا استعمال کیاجاتا ہے جبکہ کسی طریقے سے گاؤں میں ایک نوجوان تک رسائی ملنے کے بعد وہ اپنے ساتھ دیگر لڑکوں کو تیار کرلیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جانے والوں کو راستے کے مشکلات کے بارے میں پوری طرح آگاہ کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بہت کم لڑکے ایسے ہیں جو گھروں میں بتاتے ہیں یا اُن کے بڑے ہمارے پاس آکر معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایران،ترکی اور یورپ تک پہنچنے کے الگ الگ ریٹس ہیں اور مطلوبہ منزل تک پہنچنے کے بعد پاکستان میں پیسے دینے ہوتے ہیں۔

غیر قانونی تارکین وطن پر تحقیق کرنے والے صحافی مجاہد حسین کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان سے غیرقانونی طریقے سے بیرونی ممالک جانے کے لئے فضائی راستوں کا استعمال کیاجاتا تھا  لیکن 11/9 کے بعد عالمی سطح پر آمد ورفت کے لئے ہوائی اڈوں پر سخت سیکیورٹی انتظام اور شناخت کے لئے درکار دستاویزات کی تصدیق کے لئے جدید نظام متعارف کرائے جانے کے بعد زمینی راستوں کے استعمال میں اضافہ ہوا۔اُن کاکہنا ہے کہ بغیر ویزے کے غیر قانونی طریقے سے پورپ جانے کے لئے پاکستان کے صوبہ  بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے پنجکور سے ایران اور ترکی سے بلغاریہ یایونان کے راستے یورپ میں داخل ہوتے ہیں اوریہ راستہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے ایران میں جندول اللہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے حملوں کی وجہ سے سرحد پر سخت سیکیورٹی کی انتظامات کی وجہ سے سرحد پر غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والوں کو  بارڈر سیکیورٹی حکام  نشانہ بناتے ہیں۔

مجاہد حسین نے بتایا کہ ایران تک پہنچے کے لئے تفتان بارڈر سے  زائرین کے شکل میں داخل ہوکرجب  وہاں پہنچ جاتے ہیں توسفری دستاویزات کو ضائع کرکے غیر قانونی طریقے سے یورپ کے طرف سفر شروع کردیتے ہیں۔تیسرے راستے کے بارے میں اُنہوں نے بتایاکہ ہوائی جہاز کے ذریعے لوگ دبئی اورپھر لیبیا پہنچنے کے بعد یہاں سے سمندر کے راستے غیرقانونی طریقے سے اٹلی جاتے ہیں۔

اعجازاحمد کے والد جمعہ خان گاڑیو ں کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ بیٹے کو کافی سمجھایا کہ واپس آجاؤ لیکن وہ نہیں مانا۔ اُن کے بقول یہ خطرناک فیصلہ اُن کا ذاتی تھا کیونکہ گھر میں اُنہوں نے کسی کو نہیں بتایا تھا اور نہ کسی نے مشورہ دیا تھاکہ آپ اس طریقے سے باہر چلے جائیں۔ دوران گفتگو وہ افسردہ ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم چاہتے تھے کہ وہ پڑھ کر ڈاکٹر بنے لیکن سمجھ نہیں آتاکہ کس کے کہنے پر وہ اس خطرناک سفر کے لئے تیار ہوا۔

آفتاب بٹ نے بتایا کہ ایف آئی اے پاکستان سے بیرونی ممالک انسداد انسانی سمگلنگ کے روک تھام کے لئے دو طریقوں سے کارروائیاں کرتے ہیں جن میں پہلا طریقہ ری ایکٹو (Reactive) یعنی جب کوئی جرم ہوجاتاہے تو ادارہ حرکت میں آجاتاہے۔ اس میں لوگوں کو براہ راست ادارے کے پاس شکایت درج کردیتا ہے یا وزیر اعظم سیٹزن پورٹل اور بیرونی ممالک میں پاکستانی سفارتحانوں سے موصول ہونے والے شکایت پر کارروائی کی جاتی ہیں۔ دوسرا طریقہ Proactive ہے جس کا مطلب ہے کہ جرم ہونے سے پہلے ادارہ معلوما ت کے بنیاد پر اقدام کرتے ہیں تاکہ انسانی سمگلنگ کے لئے ہونے والے اقدامات کی روک تھام ہوسکے۔اُنہوں نے کہاکہ شکایت کے تصدیق کے لئے تین طریقے میں جن میں پہلا طریقہ کیس میں گواہان، شکایت کندہ کی چھان بین تاکہ پتہ چلے کہ ذاتی عناد پر تو کسی نے الزام تو نہیں لگایا ہے اور تیسرا یہ کہ مسئلے کی نوعیت دیکھا جاتا ہے کہ جھوٹ پر تو مبنی نہیں۔ شکایت پر کارراوئی کے لئے آٹھ سے پندرہ دن در کار ہوتے ہیں۔ایف آئی اے شواہد کو اکٹھا کرنے کے لئے دیگر اداروں کے مدد بھی حاصل کرلیتاہے، اس عمل کو مکمل کرنے کے بعد ادارہ باقاعدہ قانونی طریقہ کار کے بعد ایف آئی آر درج کرلیتاہے اور مخصوص عدالتوں میں ملزم کو کو پیش کیا جاتا ہے۔

ساجد نے کہاکہ اعجاز اور مسعود کے سانحہ سے پہلے ہمیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھاکہ ہمارے علاقوں سے اتنے بڑی تعداد میں نوجوان جان لیوا راستوں سے بیرونی ممالک کا رخ کرلیتے ہیں۔اُن کے بقول علاقے میں نوجوانوں کو کم معاشی مواقع، بدامنی، دہشت گردی اوروسائل کے غیر منصفانہ تقسیم وہ عوامل ہیں جن کے وجہ سے بڑی تعداد میں خیبر پختونخوا کے نوجوان غیرقانونی طریقے سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور چند دوستوں نے سبز باغ دیکھا کر لڑکوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اُن کے بقول دونوں کزن شروع ہی سے بہت اچھے دوست اور گھر میں اتنے خاموش مزاج کے مالک تھے کہ کسی کو یقین نہیں آرہاہے کہ وہ اتنا بڑا فیصلہ کرسکتے ہیں ۔

پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے بیرونی ممالک جانے والے افراد کے بارے میں کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے پاس اعداد وشمار موجود نہیں تاہم مجاہد ین حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے سالانہ 50ہزار سے زائد افرادمختلف راستوں سے اپنے بہتر مستقبل کے اُمید  لیکر غیرقانونی طریقے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

نواز خان نے کہاکہ مسعود کے بارے میں پولیس نے بتایاکہ اُن کی لاش پانچ بندوں نے غیر آباد علاقے سے لاکر پٹرول پمپ پر صبح سویرے چھوڑ دیا تھا جبکہ اعجاز کی لاش کھیتوں سے ملا تھا جس کی اطلاع مقامی لوگوں نے پولیس کو دی تھی۔اُنہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مسعود کے جسم پر کوئی زخم کا نشانہ نہیں تھا جبکہ اعجاز کا چہرہ معمولی ساسرخ ہوگیا تھا جبکہ دونوں موت شدید سردی اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ اُنہوں نے کہاکہ بلغاریہ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والوں کے لئے  ایک دروازہ ہے جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ غیر قانونی طریقے سے گزرتے ہیں تاہم یہ سفر سیکیورٹی اور شدید موسم کی وجہ سے انتہائی خطرناک ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مقامی لوگ جب مشکوک لوگوں کو دیکھتے ہیں تووہ جلدی سے پولیس کو اطلاع دیتاہے۔

یونانی حکام کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کے اعداد و شمار میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ملک کئی مسائل کا شکارہے۔ رواں سال سات فروری کو یونان کے ایک اعلی ٰقیادت نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ملاقات میں غیرقانونی پاکستانیوں کے آمد کی روک تھام کے لئے پاکستانیوں کو پانچ سال کے ویزے جاری کرنے کا اعلان کیاگیا۔ یونانی وفد نے بتایاکہ اس وقت میں ملک میں 60ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ پاکستانی موجود ہے جو کہ غیر قانونی طریقے سے یورپ کے دوسرے ممالک  جانے کے لئے انتظار کررہے ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق رواں سال خیبر پختونخوا سے انسداد انسانی سمگلنگ کے چارسو ایف آئی  آرز درج ہوئے جس میں 369افراد گرفتار ہوئے جبکہ 355کو عدالتوں کے طرف سے سزائیں ہوئیں۔ ادارے کو 378شکایت موصول ہوئےجن میں 328  کیسز میں انکوائری ہوئی۔ اگرکوئی بندہ ایف آئی اے دفتر نہیں آسکتا تو وہ سیٹزن پورٹل پر بھی اپنے شکایت درج کرسکتے ہیں اور اس بنیاد پر ادارے کو 200شکایت موصول ہوئے ہیں جو نہ صرف اندرونی ملک بلکہ بیرونی ممالک میں موجود پاکستانی شہریوں نے اپنے شکایت ادارے تک پہنچائے ہیں۔

پشاور ائیر پورٹ اور ایف آئی اے چیک پوسٹوں سے 290شکایت موصول ہوئے تھے۔ایف آئی اے کے پاس انسداد انسانی سمگلنگ کے لئے 1979ایمگریشن آرڈننس، 1974کے پاسپورٹ ایکٹ، پرویژن آف سمگلنگ آف ایمگریشن2018، پرویژن آف ٹریفیکنگ ان پرسن ایکٹ2018اور جنرل قانون کے تحت کارروائی کا اختیار ہیں۔

مجاہد حسین کے مطابق پاک ایران سرحد کے دونوں جانب آپ کو بہت زیادہ بے نامی قبریں دیکھنے کو ملتی ہیں اور سارے ان لوگو ں کے  ہیں جوغیر قانونی طریقے سے ایران کے سرحد عبور کرنے کی کوشش میں مارے جاتے ہیں۔ اُن کے بقول غیر قانونی طورپر سفرکرنے والے لوگ انتہائی مشکل اور غیر آباد راستوں سے سفر کرتے ہیں اور دوران سفر ا گر کوئی زخمی یابیمار ہوجائے توایجنٹ کسی صورت ان کے مدد نہیں کرتے کیونکہ اُن کو اندیشہ ہوتاہے کہ قافلہ تاخیر کی شکار ہوجائیگا جبکہ بعض اوقات ایجنڈ خودا یسے لوگوں کو ما ر دیتے ہیں اور جان چھڑوا دیتے ہیں۔ پا کستان کا ایران کے ساتھ ہر ہفتے قیدوں کےساتھ ساتھ لاشوں کا بھی تبادلہ ہوتاہے لیکن شناخت اور دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی سیکیورٹی اہلکار اُن کو سرحد کے قریب بے نامی قبروں میں دفن کردیتے ہیں۔اُن کاکہناہے کہ اس وقت 70ہزار پاکستانی ترکی کے مختلف شہروں میں موجودہیں ان میں ایسے لوگ بھی ہے جو پچھلے چار سال سے یورپ کے کسی ملک جانے کے لئے انتظار کررہے ہیں۔

غیرقانونی طریقے سے لوگوں کو باہر بھیجنے یا ڈنگی کے کاروبار سے اکثریت وہی لوگ وابستہ ہے جو خود غیرقانونی طریقے سے باہرجانے کی کوشش میں ناکام ہوتے ہیں اور ان کو تمام راستوں کے بارے میں معلومات ہوتے ہیں تاہم تمام بڑے ایجنٹس پاکستان سے باہر روس، تاجکستان، دبئی، ایران، ترکی اور یونان میں ہوتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایجنٹس اغوا کار اورجرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ ملکر راستے میں غیر قانونی طورپر باہر لے جانے والوں افراد کو یرغمال بنا کر اُن کو قید کرکے پیسوں کے حصول کے لئے تشدد کے ویڈیو ز خاندان والوں کو بھیج دیتے ہیں۔

بشیر کا کہنا ہے کہ اعجاز اور مسعود کے موت کے بعد پورے خاندان پر کافی منفی اثر پڑا ہے اور جب یعنی عید یں یا خاندان میں کسی دوسرے خوشی کاموقع آتاہے تو ماں دونوں کو بہت یاد کر اُداس رہتی ہیں۔اگر مسعود کو پتہ ہوتا کہ اُن کے چلے جانے سے پورا گھر کتنا پریشان ہے تو شاید وہ کبھی اتنا بڑا فیصلہ نہ کرتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top