کیا واقعی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو حکومت نے ضبط کرنا شروع کیا ہے؟

Screenshot-2023-10-10-111329fffff.png

ریحان محمد
سوشل میڈیا سمیت مین سٹریم میڈیا پر قبائلی اضلاع سمیت مالاکنڈ ڈویژن موجود نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو حکومت کی جانب سے ضبط کرنے کے حوالے سے خبریں زیر گردش ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کے جانب سے ایسا کوئی بیان جاری کیا گیا ہے۔

دعویٰ

"نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو حکومت نے ضبط کرنا شروع کیا ہے۔”

فیکٹ چیک

پچھلے ہفتے سے سوشل میڈیا، اخبارات اور نیوز چینلز پر ذرائع سے چلائی جانی والی خبر میں بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ کسی بھی ان خبروں میں کسی حکومتی نمائندے کا حوالہ نہیں دیتا۔

اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ترجمان آفاق قریشی کا کہنا تھا کہ ادارے نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی نوٹس جاری نہیں کیا ہے اور نہ ہی حکومت کے جانب سے گاڑیوں کی گرفتاری کے حوالے سے ان کو ہدایت ملی ہے۔آفاق کا کہنا تھا کہ ایک سال ختم ہونے کے بعد بھی ابھی تک ہم نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

ضلع کرم میں گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ ایران گل کا کہنا ہے کہ پہلے مہنگائی اور گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ان کا کاروبار بالکل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اب لگوں کا یہ خوف ہونے لگا ہے کہ کہ ان کی گاڑی حکومت ضبط کری گی اور ہر ایک کا یہی کوشش ہے کہ نئی گاڑی نہ خریدی جائی اس وجہ سے تمام بارگین والے بھی اپنی کروبار کے لئے پریشان ہے۔

ضلع کرم صدہ شہر میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں بارگین کے مالک شہید خان کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے انضمام ہونے کے بعد سے یہ افواہیں سامنے آرہے ہیں لیکن حقیقت میں اس طرح کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے 2019-20 کو علاقے میں یہ افواہ پھیل گئی تھی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی کسٹم شروع ہونے والی ہے تو اس وقت گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ ہوا تھا اور گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا تھا لیکن وہ بات بھی جھوٹ ثابت ہوئی تھی۔

ضلع کرم بگن کے رہائشی عمر حیات ضلع کرم سمیت قبائلی اضلاع میں نان کستم پیڈ گاڑیوں کا کروبار کرتا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو زیادہ تر نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چاپان اور متحدہ عرب امارات سے افغانستان سے ہوتے ہوئے ضلع کرم، خیبر، وزیرستان اور کوئٹہ کے راستے لائے جاتے تھے لیکن اب ان راستوں پر بھی آنا بند ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب پہلے سے موجود گاڑیوں کی کاروبار کیا جاتا ہے۔عمر حیات کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع سمیت ملاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ گاڑی پانچ لاکھ سے 20 لاکھ تک مل جاتی ہیں، کم قیمت کی وجہ سے یہاں پر گاڑیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔

قبائلی اضلاع سمیت مالاکنڈ ڈیویژن پر ایف بی آر سمیت دیگر ٹیکس قوانین نافذ نہیں ہیں اس وجہ سے یہ علاقے ٹیکس فری زون کی حیثیت رکھتی ہے اور گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہی استعمال کی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ سال 2013 کو حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اجرا کیا گیا تھا، جس میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے مالکان کو کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد رجسٹر کرانے کی اجازت مل گئی تھی اور بڑی پیمانے پر لوگوں نے کم قیمت والے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو رجسٹر کرکے بڑے پیمانے پر منافع بھی حاصل کیا تھا۔ ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں چار لاکھ سے زائد نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں۔

قبائلی اضلاع کے 2018 میں ضم ہونے کے بعد ان گاڑیوں کا پانچ سال کی مہلت دی گئی تھی۔ لیکن حکومت نے اس میں مزید ایک سال کی توسیع کردی گئی۔ موجودہ وقت میں نہ تو حکومت نے اس حوالے سے کوئی نوٹس جاری کیا ہے اور نہ ہی کسی ادارے نے ہدایت جاری کی ہیں اور ان گاڑیوں کو ضبط کرنے کے حوالے سے سارے افواہیں ہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top