خیبر پختونخوا میں 2022 کے دوران 365 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا

2018_01_04_38408_1515064067._large.jpg

سیدرسول بیٹنی

گزشتہ سال 17 جولائی 2022 کو پشاور شہر میں صدر کے پرہجوم علاقے کالا باڑی میں ریپ کا نشانہ بنانے والی سات برس کی کمسن بچی حبہ کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں ان کی لاش نزدیک ایک مسجد کے پاس سے ورثاء کو ملی تھی۔پشاور سے تعلق رکھنے والا 55 سالہ نسیم شاہ نے اپنی پوتی سے آخری ملاقات کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میں گھرجا رہا تھا کہ میری پوتی نے مجھ سے کہا کہ بابا روٹی کھا کر جانا، میں نے اُسے دس روپے اور ایک ٹافی دی تو وہ بہت خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف گئی۔

نسیم شاہ نے بتایا کہ وہ جوانی کے وقت ضلع نوشہرہ کے علاقے چراٹ سے پشاور منتقل ہوئے تھے اور 35 سال سے ایم سی ایس میں بطور چوکیدار کام کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جس جگہ ان کی ڈیوٹی تھی قریب ہی ان کے بیٹے کا گھر ہے۔واقعے والے دن میری پوتی بھی میری ڈیوٹی کی جگہ پر آ گئی، مجھے کہنے لگی میں کھانا لاتی ہوں اور گھر چلی گئی۔نسیم شاہ نے کہا کہ مجھے تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ وہ اپنے گھر نہیں پہنچی، ہم اسے تلاش کرتے رہے اور اس دوران ہم نے تھانہ غربی میں پولیس کے پاس بچی کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کی اور پھر بعد ازاں پولیس کو بچی کی لاش قریبی مسجد کے ساتھ کھلی جگہ سے ملی۔

 

پشاور میں کرائم بیٹ کور کرنے والے نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک صحافی زاہد عثمان نے بتایا کہ پچھلے سال جولائی کے مہینے میں پشاور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مسلسل تین واقعات پیش آئے تھے جن میں دو بچیاں زیادتی کے بعد قتل کردی گئیں تھی.

انہوں نے بتایا ان واقعات میں اتفاق کی بات یہ تھی کہ جولائی کے پہلے،دوسرے اور تیسرے ہفتے مسلسل اتوار کے روز رونما ہوئے، واقعات میں ملوث ملزم کو پکڑنا پولیس کیلئے ایک چیلنج بن گیا تھا اور شہریوں میں خوف ہراس پھیل گیا تھا۔زاہد عثمان نے بتایا کہ پولیس کو 17 جولائی کے آخری واردات کی جگہ سے کچھ شواہد ملے جس کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ملزم کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔

خیبر پختونخوا معلومات تک رسائی قانون 2013 کے تحت محکمہ پولیس سے لی گئی اعداد وشمار کے مطابق سال 2021 کے اندر خیبر پختونخوا میں کل 3 سو 60 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں 311 لڑکے جبکہ 49 لڑکیاں شامل تھیں۔

سال 2020 میں کل 3 سو 23 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 2 سو 72 لڑکے جبکہ 51 لڑکیاں شامل تھیں۔ 7 سات کیسز ان بچوں کے رجسٹرڈ ہوئے جو جنسی تشدد کے بعد قتل کئے گئے تھے۔ قتل ہونے والوں میں 3 تین لڑکے اور 4 چار بچیاں شامل تھیں۔ اسی طرح سال 2019 میں کل 185 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جن میں 135 لڑکے اور 50 لڑکیاں شامل تھیں۔

بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم "محفوظ بچپن” تحریک کے بانی بشریٰ اقبال حسین نے بتایا کہ پہلے لوگ لڑکیوں کے حوالے سے بہت حساس ہوتے تھے لیکنٓ حالیہ دنوں میں جو زیادہ رپورٹس آرہی ہے تو اس میں لڑکوں کو زیادہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کئی برسوں سے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جنسی تشدد کرنے والوں کی عمر عموماً 16 سے 24 سال کے درمیان ہوتی ہے۔

بشریٰ اقبال کے مطابق ان واقعات کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیکس ایجوکیشن نہیں ہے، اسے بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے اور اس وجہ سے بچوں کو ان کی بلوغت کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ بچوں پر جنسی تشدد کی ایک اور اہم وجہ ہمارے ہاں خاندانوں کا مل جل کر ایک ہی گھر میں رہنا بھی ہے۔بشریٰ اقبال نے کہا کہ جب والدین بچوں پر توجہ دینا کم کر دیتے ہیں تو وہ غلط کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں اور اکثر چھوٹے بچے اپنے بڑے کزنز کی جنسی ہوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی مقامی این جی او "ساحل” کے مطابق سال 2022 کے پہلے چھ ماہ کے دوران کم از کم 2211 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی،یعنی روزانہ 12 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے،رپورٹ کے مطابق کم از کم 1207 لڑکیوں اور 1004 لڑکوں کے کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد سال 2021 کے جنوری سے جون کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 17 فیصد بڑھی ھے جس میں 1896 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ساحل کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی یہ اعدادوشمار ڈیجیٹل میڈیا، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے لئے جاتے ہیں جس میں بچوں کے اغوا،جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات نوٹ کئے جاتے ہیں۔

سال 2022 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں کے اغوا کے 803 واقعات ہوئے ہیں، جن میں عصمت دری کے 243، اجتماعی عصمت دری کے 41، گینگ سڈومی کے 87 جبکہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد 17 لڑکے اور 13 لڑکیاں قتل کی گئیں عصمت دری کے دیگر واقعات میں دو لڑکوں اور ایک لڑکی کو قتل کردیا گیا تھا اور 212 بچے گھروں سے لاپتہ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں 1564، سندھ میں338، بلوچستان میں 23، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں199، خیبر پختون خواہ میں77 جبکہ آزاد کشمیر میں10 رپورٹ ہوئے۔

بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی کارکن عمران ٹکر کے مطابق پشاور شہر میں 8 سے لے کر 10 ہزار تک سٹریٹ چلڈرن رہتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کوئی بچہ 24 گھنٹے سٹریٹ پرہوتا ہے تو اسکے ساتھ جنسی زیادتی کے 90 فیصد چانسز ہوتے ہیں اور اسی طرح ڈرک ایڈکشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف جیلوں 300 سے 350 تک بچے موجود ہیں جن سے چھوٹے یا بڑے جرم سرزد ہوئے ہیں اور آجکل سلاخوں کے پیچھے ہیں۔عمران ٹکر نے کہا کہ ان بچوں کو مطلوبہ انصاف نہیں ملتا جو قانون اور آئین میں لکھا گیا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بعد صوبے میں کل 34 اضلاع بنتے ہیں لیکن حکومتی کی جانب سے صرف 12 اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس بنائے گئے ہیں۔

گزشتہ سال اگست کے مہینے میں صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں محکمہ داخلہ کی جانب سے جمع کی گئی دستاویز کے مطابق گزشتہ 3 سال میں 541 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان واقعات میں 13 بچے قتل بھی کیے گئے۔دستاویز کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں 202 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 13 کو سزائیں ہوئیں اور 18 عدالتوں سے بری ہوگئے جبکہ باقی ملزمان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔

محکمہ داخلہ کی دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادہ واقعات 120 صوبائی دارالحکومت پشاور میں رپورٹ ہوئے۔پولیس ذرائع کے مطابق متعلقہ علاقوں میں سی سی ٹی وی فوٹیجز کو چیک کیا جاتا ہے۔شک کی بنیاد پر گرفتار کیے گئے افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے.

بچوں پرجنسی تشدد کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل فرہاد آفریدی نے کہا کہ خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ سیکشن 53 کے تحت جس شخص کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے تو جرم ثابت ہونے پر اس کو 14 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہےاور اگر جنسی تشدد کے بعد بچے یا بچی کو قتل کیا جائے تو 302 کے تحت عمر بھر قید کی سزا یا سزائے موت سنائی جاتی ہے اور مجرم کو ضمانت پر رہائی بھی نہیں دی جاتی۔

انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ نے بچوں کے تشدد کے خلاف تمام امور کو بہت ہی اچھے طریقے سے کور کیا ہے اور ملزم کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہےلیکن ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے قانون بن جانے کے بعد اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بہت ہی زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے بچے پر جنسی تشدد کرنا بچے کا قصور نہیں لیکن پھر بھی لوگ شرم کی وجہ سے مقدمہ درج نہیں کرتے ۔

ایڈوکیٹ فرہاد آفریدی کے مطابق بہت سے ایسے وجوہات ہیں جنکی وجہ سے ملزم بری ہو جاتے ہیں۔جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ گواہ جب گواہی دینے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے انکو بھی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ سائنسی تفتیش کی کمی ہے کیونکہ وہ آلات موجود نہیں جس سے سائنسی طور پر تفتیش کی جائے جس کی وجہ سے ملزم آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق سال 2022 میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 365 کیسزریکارڈ ہوئے۔ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف کے پی محمد علی بابا نے بتایا کہ ان کیسز میں 4 بچے ایسے تھے جنہیں مجرموں نے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں 329 افراد کو گرفتار کیا۔ اے آئی جی کے پی نے کہا کہ پچلھے سال جولائی میں ایک ایسے مبینہ ملزم کو پکڑنے میں مشکل پیش آئی جس پر تین بچوں کے ریپ کا الزام تھا جس میں اُس نے دو بچوں کو ریپ کرنے کے بعد قتل کردیا تھا لیکن پولیس نے سائنسی طور پر تفشیش کرنے کے بعد خاص طور پر ڈی این اے کے نمونے لینے اور سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی جانچ پڑتآل کرنے کے بعد ملزم کو گرفتار کیا۔

اے آئی جی خیبر پختونخوا نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ سال کم عمر مجرموں کے خلاف 283 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 16 قتل اور 11 اقدام قتل کے تھے۔محمد علی باباخیل نے کہا کہ کے پی پہلا صوبہ ہے جس کا اپنا پولیس قانون (پولیس ایکٹ 2017) میں پولیس کی ڈیوٹی کے اندر خواتین اور بچوں سمیت معاشرے کے کمزور طبقات کی تحفظ کے متعلق دفعات بھی شامل کی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top