ڈی آئی خان:گرہ حیات بدر کے سیلاب متاثرین دوبارہ آبادکاری کیلئے مسیحا کی منتظر

IMG-20230105-WA0018.jpg

مہرین خالد

حالیہ سیلاب نے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی کے علاقہ گرہ حیات بدر کے 155گھرانوں کو خیموں میں رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ جبکہ سردی کی شدت میں اضافے نے ان کی
مشکلات کو اوربھی بڑھا دیا ہے۔

حیات بدر کے رہائشی محمد عمران گرہ سیلاب سے قبل لاہور میں امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبارکرتے تھے اور اسکی کافی اچھی امدنی ہوتی تھی لیکن سیلاب آنے کے بعد اس نے سب کچھ چھوڑچھاڑ کر حیات بدر میں ڈھیرہ ڈال دیےہیں ۔ ایک طرف وہ حکومت خیبر پختونخوا کی طرف سےسیلاب متاثرین کو ملنے والے چار لاکھ روپے سے اپنا تباہ شدہ گھر کی مرمت میں لگے ہوے ہیں تو دوسری طرف خیموں میں اباد اپنے گھر والوں کی دیک بھال کررہے ہیں۔ ۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنے گھر کو جلد سے جلد تعمیر کریں تاکہ خاندان کو واپس اپنے گھر میں اباد کریں اور دوبارہ اپنے کاروبار کی طرف لوٹ سکیں۔

سیلاب نے نہ صرف مردوں کو امتحان میں ڈالا ہے بلکہ خواتیں کی زندگی کو بھی اجیرن کردیا ہے۔

60 سالہ حسینہ رات 2 بجے اپنے بال بچوں سمیت سکون کی نیند سو رہی تھیں۔ جب سیلاب نے ان کے پورے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے جلدی میں اپنے خاندان کو بچایا لیکن ان کے مالمویشی اور سارا سامان سیلاب کی نذر ہو گیا آجکل وہ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ لیکن خیموں میں بھی انہیں کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں۔ واش روم نہ ہونے کی وجہ سے مرد و خواتین کھلے میدان کا رخ کرتی ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے ان کیلیے طبی سہولیات کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔ ، حکومت نے ریلیف کے مد میں 10 لوگوں پر مشتمل خاندان کو 2 یا 3 رضائیاں دی ہیں اورراشن بھی اسی مناسبت سے ملتا ہے ۔جس سے سخت سردی میں خیموں میں زندگی بسر کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

حسینہ بی بی کے مطابق ان خیموں میں آباد 155 گھرانوں میں 30 سے زائد گھرانے اب بھی ایسے ہیں جن کو حکومت کی طرف سے معاوضہ نہیں ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو معاوضہ ملا ہے وہ کسی نہ کسی طریقےسے گھروں کو تعمیر کروا کر چلے جائیں گے۔ لیکن احسینہ کو معلوم نہیں کہ انہیں کب معاوضہ ملے گا اوروہ کب گھر تعمیر کروا کر لوٹیں گے۔

گرہ حیات بدر کے ایک اور رہائشی 32 سالہ ریشم جو پیشہ کے لحاظ سے مزدور ہیں کا گھر دوسری بار سیلاب کی نذر ہوگیا۔ دوسری جانب ان کا علاقہ بارانی ہے جہاں یہ سیلابی پانی ان کےلیے باعث رحمت ہے تو دوسری جانب زحمت ہے ۔

گرہ حیات بدر میں سیلاب کور کمیٹی کے فوکل پرسن نور زمان کے مطابق حکومت کی طرف سےانہیں دو بار راشن اور فی خاندان کے حساب سے ایک ایک سیمنٹ کی بوری ملی ہے۔ اس کے علاؤہ یہاں پر سیلاب زدگان کی امداد کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن، تحریک لبیک پاکستان اور دامان آرگنائزیشن جیسے مختلف آرگنائزیشن سرگرم رہیں ہیں۔ پانی کا بند ٹوٹنے کی وجہ ان کے گاؤں میں سیلاب کا پانی مسلسل آ رہا ہے۔ کئی بار انتظامیہ اور محکمہ آبپاشی کو درخواستیں دینے کے باجود سیلابی پانی کا رخ سرکاری راستوں پر نہیں موڑا جاتا۔ انہون نے تجویز پیش کی کہ حکو مت کو اس پانی کو موڑ کر اسٹور کرنا چاہیے اور یوں اس پانی کو فصلوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کے کئی بار کہنے کے باوجود انتظامیہ سرکاری پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہیں۔

دوسری جانب ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان طارق محمود کا کہنا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے زیادہ تر دیہی علاقوں میں فصل کا انحصار باران پر ہے اس لیے ان لوگوں کی سہولیات کے لیے وہاں کی خالی زمینوں میں پانی کو چھوڑا گیا ہے۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر طارق محمود نے مزید بتایا کہ سیلاب سے تباہ شدہ گھر جن میں 50 فیصد گھر سیلاب کے راستے میں تھے اور 50 فیصد گھروں میں پانی داخل ہونے کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں، ان لوگوں کی دوبارہ بحالی کے لئے حکومت خیبرپختونخوا ان لوگوں کو جن کے گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں چار لاکھ اور جن کے گھر آدھے تباہ ہوئے ہیں، ان کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے معاوضہ دے رہی ہے۔

ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ ڈیرہ اسماعیل خان کے ہیڈ محمد شہریار نے بتایا کہ سرکاری اعداد و شماراور انکے سروے کے مطابق اب تک تیس ہزار سے زائد گھر، جو سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوئے،رجسٹر ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کا رخ تو نہیں موڑ سکتے لیکن سیلابی ریلے کے گزرنے کے راستے پر کام ضرور کر سکتے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں سیلاب سے بچنے کے لیے ہم پانی کےگزرنے کے راستوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ پانی کے راستے صاف ہوں اور آئندہ ایسی صورت حال سے بچا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top