سیدرسول بیٹنی
خیبرپختونخوا حکومت نے حالیہ سیلاب سے تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی بحالی اور دیگر نقصانات کے ازالے کیلئے خیبرپختونخوا فلڈ ریسپانس پلان 2022 تیار کرلیا ہے جس کے تحت پبلک سیکٹر میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو مرحلہ وار بحال کیا جائے گا۔
نومبر کے پہلے ہفتے میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس میں وزیراعلیٰ محمود خان نے مذکورہ پلان کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ فلڈ ریسپانس پلان کے تحت انفراسٹرکچر کی بحالی کے اقدامات کی ضلعی ، محکمانہ اور صوبائی سطح پر مانیٹرنگ کی جائے گی تاکہ بحالی پر خرچ ہونے والے وسائل کے مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
خیبرپختونخوا کا سیاحتی علاقہ ضلع سوات میں 2010 میں آنے والے سیلاب کی تباہی کے بعد لوگوں نے دریائے سوات کے کنارے رہائشی اور تجارتی تعمیرات تو دوبارہ شروع کیں لیکن فنِ تعمیرات اور اس سے متعلقہ قوانین سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی مرضی کے مطابق ہی مکانات اور کاروباری مراکز آباد کرنا شروع کر دیے تھے۔
زرمت اللہ خان شینواری نے کالام میں دریا کے کنارے ’نیو ہنی مون‘ کے نام سے ایک نیا ہوٹل تعمیر کیا تھا۔ اس سے پہلے ان کا 100 کمروں کا ہوٹل 2010 کے سیلاب میں تباہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں بیس کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نہ تو ان کو دریا کے کنارے ہوٹل تعمیر کرنے سے روکا اور نہ ہی ان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے کسی قسم کے طریقے سکھائے۔انھوں نے مزید کہا کہ دریا کے کنارے آباد ہوٹلوں کا کاروبار زیادہ چلتا ہے اور اسی لیے سیلاب کے خطرے کے باوجود انھوں نے دوبارہ دریا کے کنارے ہی نیا ہوٹل تعمیر کیا ہے۔شینواری کے مطابق اس دفعہ انکا چارمنزلہ ہوٹل جوکہ 28 ہزار فٹ ایریا مشتمل تھا جس میں ٹوٹل 116 کمرے تھے حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہوٹل کے 56 کمرے گرگئے ہیں جس سے ان کا 30 کروڑ سے 40 کروڑ تک نقصان ہوا ہے۔
اُنکا کہنا تھا کہ ہوٹل میں اس رات 37 کمروں میں سیاح بمعہ فیملیز موجود تھے لیکن جوں ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ سیلابی ریلہ مزید شدت اختیار کرسکتا ہے تو ہم نے اپنے سٹاف کی مدد سے ہوٹل کو خالی کرنا شروع کردیا،سیاح اس کو آسان لے رہے تھے اور وہ نکلنے کیلئے بالکل تیار نہیں تھے لیکن ہم نے اپنی سٹاف کی مدد سے صبح چار کے آس پاس زبردستی خالی کرایا تاکہ ان کے جانیں محفوظ ہوں۔
پاکستان میں رواں سال مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے دیگر صوبوں سمیت خیبر پختونخوا کے نو اضلاع میں تعمیرات کی وجہ سے گھروں کو نقصان پہنچا ہے اور حکومت کے مطابق سب سے زیادہ نقصان دریا کنارے آبادیوں کو ہوا ہے۔
آل سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان کے مطابق حالیہ سیلاب سے ضلع سوات میں 50 ہوٹلز اور 150 ریسٹورنٹس جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جس سے ہوٹل مالکان کو 25 بلین کا نقصان اور اسی طرح پورے ملاکنڈ ڈویژن میں سیاحت کی صنعت سے وابستہ کاروباری افراد کو 70 بلین کا نقصان پہنچا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ دریائے سوات کے کنارے بے تحاشہ تجاوزات اور دوسرے آبی گزرگاہوں پرغیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے سوات میں ہوٹلز انڈسٹری،ٹراؤٹ فش،زراعت اور باغات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔
33 سالہ امداداللہ تحصیل بحرین ضلع سوات کے گاؤں مدین کے رہائشی ہے حالیہ سیلاب میں 5 کمروں پر مشتمل 15 مرلے کے رقبے میں تعمیر کیا جانے والا گھر اب بالکل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے جس میں ان کے لاکھوں روپے کی مالیت کا سامان دریائے سوات کے پانی میں بہہ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا خاندان 10 لوگوں پر مشتمل ہے،چھوٹے بھائی کا کچھ عرصہ قبل شادی ہوئی تھی جن کی قیمتی سامان یہاں تک کہ زیورات بھی سیلاب کی نذر ہوچکے، ہم نے صرف اپنی جان بچائی اور آجکل کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں۔
صوبے میں دریاؤں کے کنارے تعمیرات کو روکنے کیلئے قانون تو موجود ہے لیکن انتظامیہ کی طرف سے قانون پر عمل درآمد کروانا ایک خواب سا بن گیا ہے۔
ماحولیات کے ماہرین کے مطابق سیلاب کی تباہ کاری حکومت کی طرف سے پہلے سے موجود دریاؤں کے آس پاس آبادکاری کے قانون پرعمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے سابق چیئرمین اور صوبے میں ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والے ڈاکٹر شفیق الرحمان نے بتایا کہ دریا کی اپنی ایک فطرت ہے اور وہ اپنا راستہ کسی طرح بھی بنا لیتا ہے۔ دریا کی فطرت میں ہے کہ اس کا راستہ روکا نہ جائے۔‘انہوں نے دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات کے بارے میں کہا کہ اب جب دریا کا راستہ غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے روک دیا جائے گا تو ظاہری بات ہے پانی کی سطح بلند ہونے پر دریا اپنے لیے راستہ تلاش کرے گا، جس کے نتیجے میں نقصان ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شفیق ںے کہا کہ دریا میں بعض اوقات پتھر وغیرہ بھی بہہ جاتے ہیں، جس سے زیادہ تر دریا اپنے راستے کے آس پاس علاقے تک پہنچ جاتا ہے جس سے غیر قانونی تعمیرات کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ مسئلہ دریائے سوات اور صوبے کے دیگر دریاؤں کے آس پاس موجود ہے جس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی تعمیرات کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ غیر قانونی تعمیرات سے نکلنے والا سارا فضلہ دریاؤں میں گر جاتا ہے جس سے پانی گندہ اور پینے کے قابل نہیں رہتا کیونکہ ان تعمیرات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہے۔اُن کے مطابق دریائے سوات کا پانی صوبے میں بہت صاف سمجھا جاتا تھا تاہم گذشتہ دس بیس سالوں میں غیر قانونی تعمیرات نے اس کو بہت گندہ کر دیا ہے اور اب یہ پینے کے قابل بھی نہیں رہا۔ حکومت کو چاہیے کہ ریور پروٹیکشن ایکٹ پر عمل درآمد یقینی بنائے اور صوبہ بھر کے دریاؤں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرے۔
دریاؤں کی تحفظ کیلئے صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے 2014 میں ’خیبر پختونخوا ریور پروٹیکشن ایکٹ‘ کے نام سے ایک قانون اسمبلی سے پاس کیا تھا جس کے تحت دریا کنارے دو سو فٹ تک کسی قسم کی تعمیر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ایکٹ میں لکھا گیا ہے کہ کسی بھی دریا کے کنارے کمرشل، نان کمرشل یا کوئی بھی فزیکل ورک پر دریا کے آس پاس دونوں جانب دو سو فٹ تک تعمیرات پر پابندی ہوگی اور فاصلہ اس سطح سے ناپا جائے گا جب دریا میں پانی بلند ترین سطح پر ہو۔
اس قانون کے مطابق دریا کی دونوں جانب دو سو فٹ کے بعد 1500 فٹ تک کا علاقہ حکومت کے کنٹرول میں ہوگا اور اس علاقے میں کسی قسم کی آبادی حکومت کی جانب سے مرتب کردہ لینڈ زون منصوبے کے تحت ہوگی۔
ماہر قانون پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان کہتے ہیں کہ دریاؤں کے تحفظ کے قانون میں یہ ذکر تو موجود ہے کہ دریا کے کنارے غیر قانونی تعمیرات کرنے والے شخص یا مالک کے خلاف کیا کارروائی ہوگی تاہم یہ ذکر موجود نہیں کہ این او سی جاری کرنے والے افسر کے خلاف کیا کارروائی ہو گی۔
طارق افغان نے بتایا کہ دوسرا اس قانون میں غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ قید ہے۔ اب چھ ماہ میں سے مجرم دو سے تین مہینے جیل میں گزاریں اور پھر رہا ہو جائیں گے، تو بعد میں غیر قانونی آباد کاری کے حوالے سے قانون میں کچھ بھی موجود نہیں ہے کہ آیا اس تعمیرات کو گرایا جائے گا یا کیا کیا جائے گا۔
خیبر پختوانخوا فلڈ ریسپانس پلان دستاویز کے مطابق صوبے میں حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے کل 311 اموات،381 افراد کو گہری چوٹیں لگیں اور 39000 مال ومویشی ہلاک ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ صوبہ بھر میں 91468 مکانات جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوئے،1 لاکھ سات ہزار 220 ایکڑ زرعی زمین اور 104 صنعتی یونٹس تباہ ہوئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان نے بتایا کہ سیلاب کے بعد دریا کے کنارے تعمیرات پر مکمل پابندی ہے اور اس حوالے سے دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے۔ڈی سی نے کہا کہ دریائے سوات پر تجاوزات کے خلاف مہم کے تحت اُٹھائے گئے اقدامات میں اب تک پانچ مختلف آپریشنز کے تحت کالام ، مدین، بحرین ، فضا گٹ اور مینگورہ میں دریائے سوات کے ساتھ 100 تجاوزات ختم کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ کالام بازار کے فلڈ پلین کی حدود میں دوبارہ تعمیر کی گئی باونڈری والز اور ہوٹلز بھی منہدم کئے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں ہم نے تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے جس کی سربراہی اے سی بحرین کررہے ہیں،محکمہ آبپاشی کے عملہ کے ذریعے نئی ، پرانی اور دوبارہ تعمیر کی گئی تجاوزات کا سائٹ ڈیٹا باقاعدگی سے تیار کیا جاتا ہے جو مزید کاروائی کیلئے مقامی انتظامیہ کو فراہم کر دیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ دریائے سوات کی ایریگشن سکیم نپکی خیل سے بھی چھ مستقل تجاوزات ہٹا دی گئی ہیں جبکہ فتح پور ایریگیشن کینال سے بھی 17 عارضی اور 6 مستقل تجاوزات ختم کی گئی ہیں۔
سوات کے تحصیل بحرین سے سابق رکن صوبائی اسمبلی جعفر شاہ نے کہا کہ دریا کی حدود معلوم ہیں اور متعلقہ قوانین بھی موجود ہیں جن کے تحت دریا کے کنارے کسی بھی قسم کی تعمیر کو روکا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کے لیے باقاعدہ قانون موجود ہے اور تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے پاس رہنما اصول بھی ہیں جن کے تحت انہیں لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے کہ دریا سے کتنے فاصلے پر وہ تعمیرات کرسکتے ہیں۔ قانون کے مطابق دریا کے کنارے سے 200 فٹ کے اندرآبادی نہیں ہوسکتی۔انھوں نے زور دیا کہ یہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے اور اس کو ان قوانین پر عمل درآمد کروانا چاہیے۔
اکتوبر کے آخری ہفتے میں ایک اعلیٰ سطح کی اجلاس سے خطاب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے دریاﺅں، محکمہ آبپاشی کی نہروں اور دیگر آبی گزر گاہوں کے کنارے ہر قسم کی نئی تعمیرات پر فوری پابندی عائد کرتے ہوئے صوبہ بھر میں آبی گزرگاہوں خصوصی طور پر دریائے سوات ، دریائے پنجکوڑہ، دریائے کنہار اور محکمہ آبپاشی کی نہروں کے قریب نئے مکانوں کی تعمیر ، ہوٹلز کے قیام اور دیگر ہر قسم تعمیرات کے خلاف فوری طور پر دفعہ 144 نافذ کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس سلسلے میں کسی قسم کی نرمی نہ برتی جائے ۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی اورآئندہ کیلئے کوئی بھی محکمہ آبی گزر گاہوں کے قریب نئے انفراسٹرکچر کے قیام یا تعمیرات کیلئے این او سی جاری نہیں کرے گا۔