شمیم شاھد : سینئر صحافی و تجزیہ کار
جنگ زدہ اور بیرونی سازشوں اور جارحیتوں سے تباہ حال افغانستان کے موجودہ تاریخ میں کوئی بھی حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمتیار کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ انجینئر گلبدین حکمتیار کے بغیر افغانستان کے پچھلے آدھ صدی کی تاریخ ادھوری ہوگا۔ آجکل وہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوبی علاقے میں کئی جریبوں پر پھیلے ہوئے ایک محل نما حویلی میں زندگی گزار رہے ہے اور انکی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے وہ کابل پر امریکی اتحادی ممالک بشمول سعودی عرب اور پاکستان کے سازشوں سے برسر اقتدار طالبان کی خوشنودی حاصل کرے تاحال انجینئر حکمتیار کی یہ خواہش یا خواب کے تعبیر ہونے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ طالبان نہ صرف اندرونی اختلافات اور رسہ کشی کا شکار ھے بلکہ وہ بہت حد تک اپنے اپنے پالیسیاں وضع کرنے میں بھی بیرونی محسنوں کے ہدایات اور ترجیحات کے سامنے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
انجینئر گلبدین حکمتیار کی سیاسی تاریخ لگ بھگ 60 کے دہائی کے وسط سے اس وقت شروع ہوتا ھے جب وہ کابل کے پولیٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں زیر تعلیم تھے اور اس دوران انہوں نے دیگر ہم خیال مذھبی ذہنیت رکھنے والے ساتھی طالبعلموں اور نوجوانوں کے ساتھ ملکر انکے بقول کمیونسٹ نظریات کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف ایک مذہبی تنظیم قائم کرلی ۔ یہ مختصر تنظیم بعد میں نزہت اسلامی،جمیعت اسلامی ۔ حرکت اسلامی اور حزب اسلامی جیسے تناور درختوں کی شکل میں منظر عام پر آکر نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا کو مذہبی عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے ایک ایسے آگ میں دھکیل دیا جس کے شعلے اب بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں وقتاً فوقتاً بڑھکتے دکھائی دیتا ہے۔
عالمی جاسوسی اداروں نے افغانستان اور پاکستان میں افغانستان کی سرزمین سے سابقہ سوویت یونین کے خلاف جہادی جذبات کو بروئے کار لانے کے بعد اسے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے خطرات قرار دیکر پاکستان اور سعودی عرب کے جاسوسی اداروں کے ذریعے طالبان کے نام سے ایک نعرہ ایجاد کرکے وقتی طور پر گلبدین حکمتیار سمیت تمام جہادی تنظیموں اور شخصیتوں کو دشمن قرار دیا گیا ۔ اس دوران انجینئر گلبدین حکمتیار کو پہلے کابل کے جنوب میں چارسیاب سے بندوق کے زور پر پشاور منتقل کر دیا گیا اور بعد میں باجوڑ کے راستے بدخشاں روانہ کرکے اس انجینئر احمد شاہ مسعود سے زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا گیا جس کو اسنے اپنا،افغانستان کا اور انکے بقول اسلام کا بھی دشمن قرار دیا تھا۔
9/11 کے واقع کے بعد توقع تھی کہ وہ بھی دیگر جہادی رہنماؤوں کی طرح سابق صدر حامد کرزئی کے سیاسی نظام کا حصہ بنے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ بظاہر تو انہوں نے امریکہ کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے کا اعلان کیا مگر اندرونی طور پر انہوں نے حامد کرزئی کے ساتھ رابطے قائم کرکے اپنے اور رشتہ داروں کے لئے مراعات حاصل کرتے رہے ۔ حتی کہ اپنے داماد ڈاکٹر غیرت بھیر اور نائب انجینئر قطب الدین ھلال کو سیاسی عمل حصہ لینے کی اجازت دیکر ایک دوغلی سیاسی حکمران عملی شروع کی ۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ جب انکے زیادہ تر جنگجوؤں جب طالبان اور سیاسی کارکن سیاسی عمل کا حصہ بن گئے تو امریکہ کے دوہا قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات اور معاملات شروع ہونے سے قبل حکمتیار نے اپریل 2017 میں افغانستان کے ملی مصالحت سے فائدہ اٹھا کر سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ لاکھوں امریکی ڈالر کے عوض مصالحت کردیا ۔
اس دوران افغانستان کے تمام سیاسی رہنماؤوں نے انکا والہانہ طریقے سے استقبال کیا اور توقع ظاہر کی کہ وہ قیام امن میں مثبت کردار ادا کرے گا مگر ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ عادت بدلنا کوئی آسان کام نہیں۔ بہرحال حکمتیار نے کابل پہنچنے کے بعد اکتوبر 2018 کے پارلیمانی انتخابات میں بیٹے حبیب الرحمن کو میدان میں ا تار دیا اور کابل کے عوام نےاسکو ایک شرم ناک شکست سے دوچار کردیا ۔ بعد میں وہ ازخود 2019 کے صدارتی انتخابات کے میدان میں اتر آئے اور پورے افغانستان میں صرف سات ہزار ووٹوں سے نوازے گئے ۔ توقع تھی کہ پچھلے پانچ دہائیوں کے حالات واقعات اور مشاہدات سے انجینئر گلبدین حکمتیار کے خیالات اور احساسات میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہوگی مگر ایسا ممکن نہیں ۔ اسکی تصدیق اس وقت ہوئی جب جون کے وسط میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد لگ بھگ ستائیس برس کے وقفے کے بعد پاکستان سے گئے ہوئے صحافیوں کی معیت میں ملاقات ہوئی۔
حیرانگی اور تشنگی کی انتہا تھی جب حکمتیار صاحب نے سابق صدور حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی پر الزامات کی بوچھاڑ کردی اور طالبان کو مسیحا قرار دیا ۔ اسی طرح انہوں نے دبے الفاظ میں پاکستان کی تعریف کے ساتھ ساتھ صرف طالبان پر اکتفا کرنے پر تنقید بھی کی جبکہ وہ پہلے ہی سے ایران امریکہ روس اور دیگر ممالک پر تنقید میں ثانی نہیں رکھتے۔ ایک عجیب بات ہے کہ ساٹھ کے دہائی کے اوائل سے لیکر اب تک انجینئر گلبدین حکمتیار کو افغانستان کے کسی بھی حکمران،سیاسی و مذہبی رہنما،عسکریت پسند یا فوجی کمانڈر۔ کسی بھی ٹیکنوکریٹ یا قومی لسانی رہنما پر اعتماد نہیں رہا ۔
سابق بادشاہ محمد ظاہر شاہ سے لیکر موجودہ قائمقام صدر اعظم ملا عبدالسلام حنفی سمیت اسے تمام حکمران غدار ملک و افغان دشمن اور بیرونی ایجنٹ دکھائی دیتے ھے ۔ اسے ایران پاکستان روس ترکی اور دیگر ھمسایہ ممالک پر بھی اعتماد نہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پانچ دہائیوں کے دوران افغان قیادت میں تمام تر اختلافات اور محاذ آرائی کی ابتداء اور بنیاد بھی انجینئر گلبدین حکمتیار کے حصے میں آتا ہے۔ 1989 جون کے بڑھکتی ھوئی گرمی کے نصف شب کا وہ مختصر وقت بھی تاریخ کے صفحات کا وہ روشن حصہ ہے جب مرحوم خان عبدالولی خان نے از خود جاکر یونیورسٹی ٹاؤن پشاور میں انجینئر گلبدین حکمتیار کو مرحوم شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کا ایک مختصر مگر مفصل خط حوالے کرنے کی کوشش کی جس میں شہید ڈاکٹر نجیب نے اقتدار انکے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ افغانستان کو مزید تباہی اور بربادی سے بچایا جائے۔
اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حامد کرزئی نے دسمبر 2001 سے لیکر ستمبر 2014 تک قومی مصالحتی عمل پر عمل در آمد کے لئے سب سے زیادہ رابطے انجینئر گلبدین حکمتیار ہی سے کئے تھے ۔ جبکہ اپریل 2017 میں کابل آنے پر سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے جو نوازشات اور احسانات حکمتیار پر کئے تھے وہ افغانستان کے تاریخ مین کسی اور پر نہیں کئے گئے ہیں ۔ یہ سب کچھ قیام امن اور جنگ سے تباہ حال افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کو بحال کرنا ہے جو یقینناً انکے پچھلے پانچ دہائیوں کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے انجینئر صاحب کے لئے قابل قبل نہیں۔