ایاز خان بازئی
اکثر ہوتا یوں ہے کہ جتنا جتنا انسان یا کوئی ادارہ پرانہ ہورہا ہوتا ہے تو وہ اپنے ماضی سے مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ وہ ہرروز نئی نئی تجربات سے گزرتا رہتا ہے جس سے ماضی میں ہونے والے تجربات پھر تھوڑے عجیب لگتے ہیں لیکن بلوچستان یونیورسٹی کے تاریخ اور تجربے اس کے برعکس ہیں۔
گزشتہ تین دن سے بلوچستان کا سب سے پرانہ علی تعلیمی ادارہ تاریخی بدنامی اور بے عزتی کا سامنا کررہا ہے جس کی مثال ہم نے اس مادر علمی کی تاریخ میں نہیں دیکھی۔
یہ یونیورسٹی ماضی میں ایک سازگار، تخلیقی اور تحقیقی ماحول کا نام تھا۔ سیاست، نظریہ، حق اور حقوق کی چار دیواری تھی۔ جس کا رقبہ، گیٹ اور عمارت امید، سوچ اور ہمت کی علامت تھی۔
یہ یونیورسٹی ماضی میں عالم اور فاضل لوگوں کا مسکن ہوا کرتا تھا جہاں ہمارے روایات کو نئی اور جدید سوچ کے ساتھ لے کر چلنے والے مفکر ہوا کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں عزت اور خلوص کی لین دین ہوتی تھی یہاں لوگوں کے نظریہ کتابوں اور بچیوں کی عزت کاریڈرز میں محفوظ ہوا کرتے تھے۔
ماضی میں اس ادارے کا بلوچستان میں نام اور کام دونوں ظاہر تھے اب بلوچستان یونیورسٹی وہ ادارہ نہیں رہا یہاں آج ہماری روایات، بچیوں کی عزت، سیاست، نظریہ، فکر سب داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
آج یہ ادارہ بلیک میلرز کے ہاتھوں کے قبضے میں ہیں جامعہ سے چھاونی بنائی گئی ہے یہاں ہماری پچیوں کی عزت کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے آج اس ادارے میں بے حس اور جنسی ہوس کے پجاریوں نے ہماری بچیوں کی عزت کی چادر کو تار تار کرنے کے درپے ہے۔ آج اس ادارے کے بلیک میلیرز نے خفیہ ویڈیوز بنانا شروع کر رکھی ہے تین دن پہلے ایف آئی اے کی تحقیقات میں ایک سکینڈل سامنے آیا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں بچیوں کی 6 خفیہ کیمروں سے ویڈیوز بنائی گئی ہیں۔ جس کے اکثر متاثرین ہماری بچیاں ہیں اور ان ویڈیوز کو بنیاد بنا کر بلیک میلرز بچیوں کو ہراساں اور بلیک میل کررہے ہیں۔
آج کی بلوچستان یونیورسٹی میں بچیوں کے واش رومز اور درختوں میں خفیہ کیمرے فٹ کئے گئے ہیں۔ آج اس ادارے میں بلوچستان کے دور دراز کے قبائلی علاقوں اپنے والدین کے منت کر کے آنے والی بچیوں کے لئے یونیورسٹی کی عمارت میں اپنائیت کا نہیں بلکہ غیر یقینی اور غیر محفوظ ماحول ہے۔ آج اس ادارے میں ساز و آواز موسیقی کی نہیں بلکہ بچیوں کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ یہاں طلباء تنظیموں پر پابندی، سیاست پر پابندی، سوچ پر پابندی، نظریہ پر پابندی ہے۔آج کے یونیورسٹی میں انصاف نہیں، تحقیق نہیں، حق کی آواز نہیں اگر ہے تو وہ بوٹ ہے، بندوق ہے، آڈر ہے، بےعزتی اور بے غیرتی ہے کیونکہ آج کی بلوچستان یونیورسٹی بلیک ملیرز کے ہاتھوں میں ہے اور حبیب جالیب نے یونہی نہیں کہا تھا کہ
کمینے جب عروج پاتے ہیں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔
بلوچستان کے غیور اقوام حق دینا اور حق لینا جانتے ہیں بلوچستان قبائلی معاشرہ ہے یہاں پر عورت اور بگڑی کی جان سے بھی زیادہ عزت کی جاتی اور ان بلیک میلرز نے پگڑی اور عورت دونوں کو للکہارا ہے اور یونیورسٹی کے نام کو ٹھیس پہنچایا ہے۔ اب حکام کو چاہیے کے وی سی ڈاکٹر جاوید سے استعفاء لے(ان کا نام اس سیکنڈل سے جڑا ہے) اور اس سکینڈل کی صاف اور شفاف تحقیقات کر کے بلیک میلرز کو سخت سے سخت سزا دیں اور بلوچستان یونیورسٹی کو ماضی کی تحقیق، سیاست، سوچ اور امید والا ادارہ بنا کر حکام اپنا فرض ادا کریں۔ کیونکہ قبائلی اقوام عزت کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں۔