مظہر آزاد
جب میں نفسیات میں گریجویشن کرنے کے بعد ایم فیل میں داخلہ لینے کیلئے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی گیا تو میرے پاس تعلیمی نفسیات اور کلینیکل نفسیات میں سے ایک کا انتخاب کا موقع تھا۔ چونکہ میں پہلے سے تعلیمی نفسیات پڑھنا چاہتا تھا اسلئے میں نے بغیر سوچے تعلیمی نفسیات کا انتخاب کیا۔ انٹرویو میں مجھ سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں تو زیادہ مانگ کلینکل نفسیات کی ہے کیا وجہ ہے کہ آپ پھر بھی تعلیمی نفسیات پڑھنا چاہتے ہیں ؟
میں نے وضاحت کیلئے ایک مثال پیش کی کہ کسی بھی میدان میں ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ کرانے والوں کو بے وقوف سمجھے جائےگا کیونکہ ہاتھی اور چیونٹی میں مُقابلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاتھی اور چیونٹی کی دوستی اور دشمنی کے قصے صرف لطیفوں میں اچھے لگتے تھے اصل زندگی میں نہیں۔
دوسری طرف ہم اپنے تعلیمی ماحول میں ایک ہی کلاس میں پڑھے والے طالب علموں میں ہاتھی اور چیونٹیوں کی جسم کی طرح ذہنی قوت رکھنے والے طالب علموں کا مقابلہ کررہے ہوتے ہیں۔ اسی زیادتی نے مجھے مجبور کیا کہ میں تعلیمی نفسیات پڑھوں اور پھر اِسی شعبے میں کام کروں۔ جہاں تک مُجھے لگا میرے جواب نے سوال کرنے والوں متاثر کیا تھا۔
آپ لوگ شائد میرے جواب سے اُلجھن کا شکار ہوگئے ؟میرے بتانے کا مطلب یہ تھا کہ جِس طرح ہاتھی اور چیونٹی کی جسامت میں زمین آسمان کا فرق ہے ٹھیک اُسی طرح انسانوں کے کے ذہنی قوت یا ذہانت میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ جِس چیز کو ہم عام زبان میں ذہانت کہتے ہیں اُس کے ناپنے کیلئے مختلف طریقے اور ٹیسٹ استعمال ہوتے ہیں اور وہ اِنسان کے مختلف قسم کی ذہانتوں کو ناپتے ہیں کیونکہ ذہانت ایک چیز کا نام نہیں بلکہ اِس کے مختلف اقسام ہوتی ہے جیسے کہ تعلیمی ذہانت، موسیقی کی ذہانت، منطقی ذہانت، شخصی ذہانت، حساب کتاب کی ذہانت وغیرہ۔
چونکہ ہمارے تعلیمی نظام بہت سے سارے مسائل کا شکار ہے اور یہ مسئلہ بھی نظام تعلیم کی خرابی کا نتیجہ ہے لیکن چونکہ نظام تعلیم تبدیل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے اسلئے اِس کے نقصانات کو کم کرنے کیلئے والدین کو اپنا کردار ادا کرکے اپنے بچوں کی زندگی آسان کرنی ہوگی۔
ہم لوگ عام طور پر پڑھائی میں قابل بچوں اور امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے والے بچوں کو ذہین کہتے ہیں اور باقی قسموں کی ذہانت کو یا تو جانتے نہیں ہیں اور اگر جانتے بھی ہے تو اُس کو توجہ نہیں دیتے۔ لیکن یہ ایک الگ مسئلہ ہے, یہاں میں جِس مسلئے کا ذکر میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی بچے کے جسمانی کمزوری کو قبول کرتے ہیں اور اُس سے اُس کے جسامت کے لائق کام لیتے ہیں اور اُس سے اس کے جسامت اور طاقت کے مطابق توقعات رکھتے ہیں تو ٹھیک اُسی طرح میں اُس کے ذہانت کو پیشِ نظر رکھ کر اُس سے اُسی تناسب سے توقعات رکھنے چاہئے اور اُتنا ہی کام لینا چاہئے۔
اگر ہم ایک پہلوان بچے کو ایک کمزور بچے کی ساتھ پہلوانی نہیں کرنے دیتے تو ہم کیسے ایک ذہنی پہلوان بچے کو ایک ذہنی طور پر کمزور بچے کے ساتھ پڑھائی کے میدان میں مقابلہ کرنے دیتے ہیں اور اُس سے پہلوان سے جیتنے کی توقع بھی کرتے ہیں۔
ذہانت ناپنے کے عالمی معیار کو “انٹیلیجنس کوشنٹ” یا IQ کہا جاتا ہے جو انسان کی طبعی عمر اور ذہنی عمر کے حساب سے معلوم جاتا ہے جِس کا احاطہ صفر سے لے کر 160 اور اُس سے بھی اوپر تک ہے۔ ہر بندہ اپنی ذہانت کے حساب سے چیزوں کو دیکھتا ہے اور ذہانت کے حساب سے نتائج اخذ کرتا ہے اور نتائج دیتا ہے۔ یہی مثال تعلیمی ماحول میں بچوں کی ہے جو اپنی ذہانت اور محنت کے حساب سے پڑھائے ہوئے سبق سے استفادہ کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج دیتے ہیں۔ اسلئے بچوں سے نتائج کی توقع کرتے وقت اُس کی ذہنی استعداد کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
اگر ہم ایک بچے سے اُس کی ذہنی طاقت سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کی توقع کرینگے گے تو غالب امکان ہے کہ بچہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوگا جِس کے بہت سارے نقصانات سامنے آئینگے جیسے کہ امتحان کا حد سے زیادہ دباؤ، پڑھائی پر حد سے زیادہ انتہائی کم وقت اور توانائی خرچ کرنا، اگلے امتحانات میں بہت ہی خراب نتائج، مختلف نفسیاتی مسائل، اساتذہ اور والدین سے بے رُخی اور نفرت، پڑھائی میں دلچسپی ختم ہونا، زندگی سے دلبرداشتہ ہونا، غلط لوگوں سے میل جول شروع کرنا وغیرہ۔ ایک تحقیق کے مطابق مجموعی طور ہر دنیا کے ۸ فیصد بچوں میں Anxiety پائی جاتی ہے جِس کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی ماحول کا دباؤ ہے۔
اپنے بچوں کی ذہانت، صلاحیت اور طاقت کو مدِ نظر رکھ کر اُن سے توقعات رکھنے چاہئے کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ کسی بچے کے امتحان کا نتیجہ اُس کے مستقبل کی نشاندہی کریں۔ بہت سارے ایسے بچے جِن کو والدین اور اساتذہ نے کند ذہن قرار دیا تھا بڑے بڑے کارنامے سر کر چُکے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم البرٹ آئین سٹائنکی مثال لے سکتے ہے جِن کو کند ذہن قرار دے کر سکول سے نکالا گیا تھا لیکن وہ اِس کے باوجود بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان بنا اور فزکس میں نوبل انعام لینے کا حقدار ٹھرا۔
اگر کوئی بچہ ایک قسم کی ذہانت نہیں رکھتا تو غالب امکان ہے کہ وہ دوسری طرح کی ذہانت کا حامل ہو اور وہ اُسی میدان میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اُسے اُس طرف متوجہ کیا جائے اور اُسی میدان میں اُس کے حوصلہ افزائی کی جائے۔
اسلئے تمام والدین سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی کمزوریوں اور صلاحیتوں کی اچھی طرح نشاندہی کریں اور پھر کمزوریوں پر محنت کرتے ہوئے دور یا کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ساتھ ساتھ اُس کے صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اُنہیں ایک کامیاب فرد بنا کر معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے تیار کرنا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ آزادی سوات