کشمیر،کشمیریوں کا ہے

68359734_2968084566540685_7296083394956361728_n-1.jpg
ڈاکٹر خادم حسین
وادئی کشمیر کے اندر شورش میں اضافے نے ایک طرف کشمیر پر پاکستان اور  بھارت کے اندر تندو تیز مباحث میں اضافہ کیا ہے اور دوسری طرف کشمیر کے لوگوں پر مصائب کے مزید پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔
کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے چند باتیں مد نظر رہنی چاہئے۔
پہلی بات، کسی بھی قوم کا جغرافیہ، تاریخ، ثقافت، وسائل اور ان پر اختیار اس قوم میں رہنے والے لوگوں کی ملکیت ہوتے ہیں۔ قومی حق حکمرانی انسانیت کے مسلمہ اصول ہیں۔ کشمیر کشمیریوں کا ہے کسی اور کا نہیں۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق دوسری ریاستوں کی طرح کشمیر کے بارے میں بھی فیصلہ اسکے حکمرانوں پر چھوڑا گیا اور یہیں سے تنازع نے جنم لیا۔
دوسری بات، آزادی کیلئے جدوجہد کرنا کسی بھی قوم بشمول کشمیر کے لوگوں کا حق ہے۔ میری نظر میں یہ جدوجہد اگر عدم تشدد پر مبنی ہوگی تو بہتر اور دیرپا نتائج دے گی۔ کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد آزادی کو جتنا نقصان باہر سے بھیجے گئے مسلح انتہا پسند دستوں نے پہنچایا شاید اور کسی چیز نے نہیں پہنچایا۔ بھارت کو بآسانی کشمیر کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے کھاتے  میں ڈال کر بین الاقوامی طور پر بدنام کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔
دوسری طرف پاکستان کی اشرافیہ کی بنائی ہوئی خارجہ پالیسی، نجی ملیشاؤں کا استعمال، انتہا پسندی کے ریاستی بیانئے اور منتخب پارلیمان اور حکومت کو بے اختیار کرنے کے کیلئے ان پر اداروں کی طرف سے مسلسل ضربوں کی وجہ سے پاکستان خطے کے اندر اور دنیا میں تنہا ہو کر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کیلئے پاکستان کی ڈپلومیسی میں کوئی وزن نہیں رہا۔
تیسری بات، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، عام لوگوں پر جبر تشدد، گرفتاریوں، جبری گمشدگیاں اور املاک کے نقصان کے خلاف ہر صاحب دل و دماغ انسان اور قوم کو آواز اٹھانی چاہئے۔ یہ آواز ہر جگہ، ہر طبقے اور ہر قوم کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اٹھانی چاہئے۔
وہ لوگ جو بلوچوں، پشتونوں، سندھیوں، ہزارہ، پنجابیوں اور سرائیکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں، گرفتاریوں، ٹارگٹ کلنگ اور قتل عام پر تو خاموش رہتے ہوں لیکن کشمیریوں کے درد پر بلبلا اٹھتے ہوں، انکے اس رویے کو دوغلا پن اور منافقت کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
چوتھی بات، کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا بھارت اور پاکستان کا ایک اور تنازع پانی کا ہے۔ پانی کے تنازع کو اگر کشمیر کے تنازع کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے تو دونوں تنازعات کے حل میں اور  زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہونگی اسلئے دونوں تنازعات الگ الگ فریم ورک میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پانچویں بات کشمیر کی تقسیم کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی قوم کیلئے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ اسکے فطری جغرافیے، ثقافت، تاریخ اور معاشرے کو جبر کے ہتھیار سے حصوں بخروں میں بانٹ دیا جائے۔ میرے خیال میں کشمیریوں پر سب سے بڑا ظلم کشمیر کی تقسیم ہے۔
کشمیر کے تنازعہ کو افغانستان سے جوڑنا اور بھارت اور امریکہ کو دباؤ میں لانے کیلئے افغانستان میں آگ جلائے رکھنا سب سے زیادہ غیر انسانی اور غیر منطقی بات ہوگی۔ افغانستان میں مسلسل مداخلت اور افغانستان کی سالمیت کے خلاف اقدامات نے لاکھوں افغانوں کا قتل عام کیا ہے۔ اس سلسلے کو فوری طور پر بند کرنے کیلئے آواز اٹھانا سب انسان دوست اور روشن فکر قوم پرستوں کی ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین ایک محقق اور تجزیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت باچاخان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top