نیشنل ایکشن پلان متفقہ دستاویز ہے،پوائنٹ سکورنگ کی گنجائش نہیں.میاں افتخار

D0HR9vZWoAIk_fW.jpg

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے امن کے قیام اور عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کے لئے دوٹو ک عملی اقدامات اور نیشنل ایکشن پلان پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کی ضرورت پر زو ردیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی کوئی سرحد نہیں، اس مشترکہ مسئلے کے حل کے لئے مشترکہ اقدامات ضروری ہیں۔

میڈیا کو جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اے این پی بار ہا مطالبہ کرتی آ رہی ہے کہ دہشت گردوں کو کچلنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے متفقہ ایجنڈے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدیقینی بنایا جائے جو پاکستان کوآرمی پبلک سکول کے شہداء کے خون کی قیمت ادا کرنے کے بعد ملا ،انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر کسی ایک جماعت یا حکومت کو کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں ،اگر ’’نیپ‘‘ پر من و عن عملدرآمد ہوتا ہے تو یہ پوری قوم کی کامیابی ہو گی اور اس کی ناکامی بھی پوری قوم کی ناکامی تصور کی جائے گی.

میاں افتخار حسین نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کسی ایک پارٹی نے نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں نے وضع کیا ہے، پاکستان میں اب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہاں دہشت گردی کیسے شروع ہوئی ؟ کس نے شروع کی ؟ کس نے انہیں مضبوط کیا اور کس نے دہشت گردوں کو پناہ دی؟آج پاکستان کی امن پسند قوتوں کے بعد دنیا بھی پاکستان سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرے.

انہوں نے کہا کہ اگر اس نازک وقت میں بھی حکومت کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کی گرفتاری پر کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے تو حکومتی جماعت کا ماضی بھی سب کو یاد ہے،یہ پاکستان کی واحد جماعت تھی جو طالبان کیلئے دفاتر کا مطالبہ کرتی رہی جبکہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ اتحاد بھی حکومتی پارٹی کا خاصہ رہا ہے،اے این پی آج بھی مطالبہ کرتی ہے کہ یہ کریڈٹ لینے کا وقت نہیں، دہشت گردی اور کالعدم تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا وقت کی اہم ضرورت ہے.

انہوں نے کہا کہ اے این پی سے زیادہ کوئی بھی قیام امن کا حامی نہیں ہو سکتا،کیونکہ اے این پی نے دہشت گردی کے خلاف کردار ادا کیا ہے،ملاکنڈ میں قیام امن کیلئے مذاکرات سے لے کر بعد میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی اے این پی نے کیا تھا.

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی انسانیت دشمن نظریے کا نام ہے جس کے خلاف حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت تمام مکاتب فکر کو یکجہتی کے ساتھ اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top