سفید احمد
پشاور:ڈی جی فوڈ اتھارٹی ریاض خان محسود نے کہا ہے کہ 14 ہزار سے زائد کے فالو اپ انسپکشنز ہوئے ہیں جبکہ 17 ہزار سے زائد کے لائسنس نوٹسز جاری کئے گئے ہیں، چودہ سو کے قریب اشیائے خوردونوش کے روزگاروں کو سیل کردیا گیا ہے اور اب تک 66 ملین کے جرمانے جبکہ تریالیس ملین لائسنس کی مد میں جمع ہوئے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہو ں نے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے پی فوڈ اتھارٹی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے سالانہ کارکردگی رپورٹ میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ فوڈ اتھارٹی کا عملہ عوام کی عدالت میں جوابدہ ہے اور عوام تک پہنچنے کا بہترین زریعہ میڈیا ہے۔ صوبے کے ہرفرد کو حق ہے کہ وہ فوڈ اتھارٹی کی کاروائی کے بارے میں جانے۔ عوام کو جاننا چاہئے کہ ان کے پیسوں سے بنا ادارہ کیا کررہا ہے۔
ریاض خان محسود کا کہنا تھا کہ ابھی تک ساتوں ڈویژنل اضلاع میں چیالیس ہزار چھ سو سے زائد انسپکشنز ہوئے ہیں جس کے دوران بائیس ہزار سے زائد کے ایمپرومنٹ (اصلاحی نوٹس) نوٹسز دئے جاچکے ہیں۔ ان تمام انسپکشنز میں سے ہر ایک انسپکشن کا آن لائن ریکارڈ موجود ہیں۔
اشیائے خوردونوش سے وابستہ افراد میں آگاہی بیدار کرنے بارے ان کا کہنا تھا کہ فوڈ سیفٹی لیول ون کے گیارہ تربیتی پروگراموں کے دوران اشیائے خوردونوش سے وابسطہ چھ سو سے زائد اہلکاروں کی تربیت مکمل ہوئی ہے جبکہ ان چھ سو افراد کی میڈیکل سکریننگ کے دوران اٹھارہ افراد میں پیاٹائٹس اور ٹی بی جیسے موذی مرض کا انکشاف ہوا جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
دودھ سے متعلق ایک سوال کے جواب مین ان کا کہنا تھا کہ اس مد میں سب سے زیادہ کاروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں جس میں تین ہزار معائنوں کے دوران پشاور شہر میں ستر ہزارلیٹر سے زائد کا آلودہ دودھ تلف کیا جاچکاہے جبکہ ساٹھ دودھ کے ٹینکرز ایسے ہیں جن کو مضر صحت قرار دینے پر موقع پر ہی تلف کیا گیا ۔
رمضان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ریاض خان محسود کا کہنا تھا کہ فوڈ اتھارٹی کیلئے ہر روز روزہ اور ہر ماہ رمضان ہے اور اتھارٹی کی کاروائیاں دن رات جاری رہینگی چاہے رمضان ہو یا نہ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ رمضان کے دوران زیادہ کاروائیاں رات کے وقت ہوتی ہیں جس کیلئے پہلے ٹیمیں تیار ہیں۔
اتھارٹی کے توسیع کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اتھارٹی کو صوبے کے دیگر پندرہ اضلاع تک توسیع دے رہے ہیں جن میں دو نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع کرم اور خیبر بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوڈ اتھارٹی سب سے پہلے ضم شدہ قبائیلی اضلاع میں جارہی ہے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ اتھارٹی بہت جلد صوبے کے بیشتر اضلاع میں فعال ہوجائیگی جس سے ملاوٹی اور بوٹی مافیہ کا قلع قمع ممکن ہوسکے گا۔