پشاور:عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ غنی خان انسانیت کا مجسمہ تھے اور جدوجہد آزادی کے دوران انگریز سامراج کی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود استقلال کا پیکر رہے.
ان خیالات کا اظہار انہوں نے باچا خان مرکز میں پشتو کے عظیم شاعر ،مصور ،فلسفی اور سیاستدان غنی خان کی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا.
اس موقع پر قومی وطن پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری ہاشم بابر سمیت سیاسی و ادبی شخصیات نے اپنے مقالوں کے ذریعے غنی خان کی زندگی اور جدوجہد پر روشنی ڈالی ۔
تقریب میں مرکزی سینئر نائب صدر حاجی غلام احمد بلور ،جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین ،صوبائی سینئر نائب صدر سید عاقل شاہ، ڈائریکٹر باچا خان ٹرسٹ ایمل ولی خان ، اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک سمیت مرکزی و صوبائی قائدین بھی موجود تھے.
اسفندیار ولی خان نے کہا کہ غنی خان نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں بے شمار بار گرفتارہوکر ہری پور،ملتان،لاہور،ڈیرہ اسماعیل خان حیدرآباد اور پشاور کی جیلوں میں قیدبامشقت اور قید تنہائیگزاری لیکن کبھی ہمت نہ ہارے اور ہمیشہ عزم و استقلال کا پیکر بنے رہے،
انہوں نے کہا کہ پشتو زبان میں خوشحال خان خٹک کے بعد غنی خان واحد شاعر ہیں جنہوں نے بڑی بے باکی، دانش اور جرات سے کام لیتے ہوئے انسان، دنیا، مذہب ، اور موت و حیات کے بارے میں نہ صرف نئے نئے سوالات پیش کئے بلکہ اپنے علم و ہنر سے کام لیتے ہوئے اپنے بہت سے اعتراضات کو بھی شاعرانہ زبان میں سوالات کے رنگ میں پیش کیاہے ۔
اسفندیار ولی خان نے مزید کہا کہ غنی خان نے چچا کی حیثیت سے میری ہمیشہ ڈھارس بندھائی اور کبھی بھی مجھے اکیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیا ، غنی خان نے کئی برس قبل یہ کہا تھا کہ پختونوں کا قافلہ تمہاری قیادت میں آگے بڑھے گا۔
انہوں نے کہا کہ بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے ، مصوری اور مجسمہ سازی میں کمال ہنر تاریخ کا حصہ ہیں۔بطور تجربہ کار انجینئر غنی خان نے حیات و کائنات کے ذرے ذرے کی ساخت اور رنگ و نورکو انجینئرنگ کی آنکھ سے پرکھا۔
انہوں نے پشتو شاعری میں اپنے لئے ایک الگ راستہ، ایک منفرد رنگ اور ایک جداگانہ روایت کی طرح ڈالی ہے۔دریں اثنا غنی خان کی برسی کے موقع پر باچا خان ٹرسٹ کے زیر انتظام مختلف کتب بھی شائع کی گئیں ، کتب کے لکھاریوں نے اسفندیار ولی خان کو اپنی کتابوں کا تحفہ پیش کیا۔