پشاور: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی زیر صدارت صوبے میں شامل نئے ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی تکمیل، محکموں کی توسیع ، ججوں کی تعیناتی ، نیشنل فنانس کمیشن میں ضم شدہ اضلاع کے تین فیصد حصے کی صوبے کو منتقلی اور اُسے تیزی سے بروئے کار لانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کئے گئے ۔
وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹبلشمنٹ ارباب شہزاد نے وفاقی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کی جبکہ سینئر صوبائی وزیر برائے بلدیات شہرام خان ترکئی، وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، وزیر قانون سلطان محمد خان، وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اﷲ،وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ضم شدہ اضلاع و صوبائی حکومت کے ترجمان اجمل خان وزیر، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کامران بنگش ، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ضیاء اﷲ بنگش، چیف سیکرٹری سلیم خان، آئی جی خیبر پختونخوا ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو، متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریز اور دیگر اعلیٰ حکام نے بھی اجلاس میں شرکت کی ۔
وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ اُن کی پہلے سے جاری ہدایات پر عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے اگلے مالی سال کے صوبائی بجٹ میں ضم شدہ اضلاع کا بجٹ بھی شامل کیا جائے .
وزیراعلیٰ نے کہاکہ ضم شدہ اضلاع کے لئے مزید 7000 آسامیاں تخلیق کرنا بھی پلان کا حصہ ہے اور ان آسامیوں پر بھرتی کیلئے ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کو عمر اور تعلیم میں رعایت دی جائے گی ،انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع میں تاجروں کے نقصا ن کا ازالہ بھی تعمیر نو و بحالی کے مجموعی پلان کا حصہ ہو گا۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ حکومت کا پلان ہے کہ ضم شدہ اضلاع میں ہی ججز کے دفاتر قائم کئے جائیں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں جو ڈیشری کیلئے مزید 907 آسامیاں تخلیق کریں گے ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق سیشن جج اور سینئر سول ججوں کی تعیناتی ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ججز ان ضم شدہ اضلاع میں اپنا کام شروع کررہے ہیں آئندہ چند دنوں میں مکمل طور پر انصاف کی فراہمی کا عمل نظر آنے لگے گا اور لوگ اس سے مستفید ہوں گے ۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ وہ ضم شدہ اضلاع میں جوڈیشری کے نظام کو مز ید بہتر اور مستحکم بنانے کیلئے متعلقہ فورم پر بات کریں گے ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اسسٹنٹ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور فاٹا ٹریبونل کے ساتھ تمام زیر التوا کیسز اب جوڈیشری کو منتقل کئے جا چکے ہیں۔ 25 پولیس سٹیشنوں کی توسیع کر دی گئی ہے۔ ضم شدہ اضلاع کے لئے مزید 393 سینئر پولیس افسران بھرتی کئے جائیں گے اجلا س کو مزید بتایا گیا کہ لیویز / خاصہ دارپوسٹ آرڈنینس تیار ہے جس کو بہت جلد کا بینہ میں پیش کیا جائے گا۔ لیویز خاصہ دار (ٹرانزیشن ) آرڈنینس اور خیبرپختونخوا خاصہ دار ریگولیشن اینڈ پروٹیکیشن آرڈنینس 2019 کو محکمہ قانون سے منظور کیا گیا ہے جس کو اگلے کابینہ اجلاس سے منظور کراکے عمل درآمد کیلئے پیش کیا جائے گا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبائی اسمبلی میں ضم شدہ اضلاع کی مجموعی طور پر 25 نشستیں رکھی گئی ہیں ۔ لوکل گورنمنٹ میں 702 ویلج کونسل جبکہ25 ٹی ایم ایز ہوں گے ۔ اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے اے ڈی پی میں 460 نئی سکیمز بھی ڈالی گئی ہے ۔
اُنہوں نے کہا کہ بارشوں اور سیلابوں سے جانی و مالی نقصانات کے ازالے کیلئے معاوضے کی رقم ادا کرنے کیلئے ضم شدہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پولیس اور عدلیہ کا نظام وہی ہو گا جو پورے صوبے میں نافذ العمل ہے ۔ لیویز اور خاصہ داروں کو بتدریج پولیس میں ضم کیا جائے گا اور انہیں جاب سکیورٹی دیں گے ۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ اسی سال ضم شدہ اضلاع میں سمال ڈیمز کی تکمیل ممکن بنائی جائے گی جس میں پانچ سمال ڈیمز جون2019 تک مکمل کرلئے جائیں گے ، اگر وسائل کی دستیابی ہوئی تو ہم 10 سمال ڈیمز بھی رواں سال مکمل کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ 15 مارچ سے تمام ضم شدہ اضلاع میں صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے جس کے تحت ضم شدہ اضلاع کے تمام (11 لاکھ) خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ مہیا کئے جا ئینگے۔