اسلام گل آفریدی
سُنبل جاوید سرکاری ملازمہ ہے لیکن تین سال پہلے شادی کی تیاری کے سلسلے میں اُنہوں نے پشاور کے ایک معروف پارلر سے لیزر کی مدد سے چہرے،ہاتھوں اور پیروں سے بال ہٹائے۔اُنہوں نے کہا کہ ابتداء میں معمولی سی جلن محسوس ہورہی تھی لیکن بعد میں جلد بالکل سرخ ہوگیا اور تکلیف برداشت سے زیادہ ہوئی تو جلد کے ماہر ڈاکٹر سے علاج شروع کروایا۔ اُن کے بقول ڈاکٹر نے اُن کو بتایاکہ اُس کا جلد انتہائی حساس ہے اور لیزر کے استعمال سے اُن کو نقصان پہنچا ہے۔اُن کاکہنا ہے کہ علاج کافی مہنگا اور طویل ہے اور تکلیف کی وجہ سے باہر دھوپ میں گھومنا پھرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
صائمہ شاہ پچھلے دس سالوں سے پشاور کے علاقے ٹاؤن میں پارلر چلارہی ہے جہاں پراُن کے ساتھ دیگر خواتین بھی کام کررہی ہے اُنہوں نے کہا کہ یہاں پر ایسی کوئی سہولت خواتین کو مہیا نہیں کیا جاتا جوکہ طبی اصولوں کے خلاف ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ یہاں پر بالوں کا رنگ،میک اپ،لیزر سے چہرے کے بال ہٹانا اور دیگر جدید مشنری سے جلد کی خوبصورتی کا کام کروایا جاتا ہے۔اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ وہ نہیں سمجھتی کہ پارلرز کے ساتھ ہیلتھ کئیر کمیشن کا کوئی تعلق ہے کیونکہ اُن کے پاس کافی تجربہ کار عملہ موجود ہے جوکہ کئی سالوں سے اس شعبے میں کام کر رہے ہیں۔
ہیلتھ کیئر کمیشن خیبر پختونخوا سے فراہم کردہ دستاویز کے مطابق جولائی 2022سے جون 2023تک مختلف ذرائع سے ہیلتھ کئیر کمیشن کو ہستپال،نجی کلینکس، میڈیکل لیبارٹریز اور بیوٹی پالرز کے1ہزار64 شکایات موصول ہوئیں جن میں 90فیصد حل کردی گئی ہیں جبکہ باقی پر کام جاری ہے۔ادارے کے مطابق پالرز کے حوالے سے بھی شکایات موصول ہوئے ہیں جن میں خواتین نے موقف اپنایا تھا کہ پارلرز سے سہولت لینے کے بعد جلد کے امراض کا سامنا کرنا پڑا۔
کمیشن کے مطابق ایک سال میں رجسٹرڈ شکایت میں 150 سے زائد شکایات صوبے میں کام کرنے والے بیوٹی پالرز کے خلاف موصول ہوئے جن میں خواتین کے طرف سے ناقص سہولیات اور سہولت کے حصول کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی کرائی تھی۔جس کے بعد ہیلتھ کیئر کمیشن خیبر پختونخوا نے 2015 کے بعد پہلی بار صوبے میں کام کرنے والے پارلرز کی چھان بین کا عمل شروع کردیا ہے۔
ڈاکٹر شبنم گل کمیشن میں ڈائریکٹر لائسنسنگ کے عہدے پر کا م کررہی ہے، اُنہوں نے بتایا کہ خواتین کے طرف سے شکایت اور صوبائی محکمہ صحت کے سٹینڈنگ کمیٹی کے ہدایت پردو مہینے پہلے صوبے میں اخبارات و سوشل میڈیا پر اشتہارات اور معلوماتی مواد کو تقسیم کرکے پارلرز کیلئے آگاہی مہم کا آغاز کیا گیا۔ اُن کے بقول پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے رہنماء اصول فراہم کئے ہیں کہ اگر بغیر ڈاکٹر کے پالرز میں کچھ خاص قسم کے سہولیات مہیاکیا گیا تو یہ قانوناً جرم ہے۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کمیشن کے مطابق جلد کی خوبصورتی کے لئے سہولت کے حصول کوئی ماہر ڈاکٹر ہی مہیا کرسکتا ہے جن میں لیزر ٹیکنالوجی کا استعمال، جلد کی عمر بڑھانے کے لیے اینڈو کرینولوجیکل، نرم ٹشو فلرز،ہائیڈرہ فیشل، چربی ہٹانا، جراحی، جلد میں انجکشن، جلد پر ادویات کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔
پشاور کے خیبر تدریسی ہسپتال صوبے کے تین بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ہے یہاں پرشعبہ جلدی امراض کے سربراہ ڈاکٹر مہران خان نے بتایاکہ موجودہ وقت میں وہی خواتین علاج کے لئے زیادہ تعداد میں آتے ہیں جو پارلرز سے کسی قسم کے سہولت لینے کے بعد جلد کے طبی مسئلے کی شکار ہوئی ہو۔اُنہوں نے بتایاکہ ہفتے میں پانچ دن او پی ڈی میں روزانہ تین سوتک مریض آتے ہیں جن میں30 سے زائد لوگ یہی ہوتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جلد کی خوبصورتی خواتین کی بڑی خواہش ہوتی ہے جس کے لئے جلد پر دوائی لگانا یا جدید مشنری کا استعمال کیاجاتاہے تاہم طبی شعبے میں اس کا الگ شعبہ ہے جن کو استھٹیک کہاجاتاہے جوکہ ماہر بندہ تفصیلی معائنے کے بعد کسٹمر کو کچھ تجویز کرسکتاہے لیکن بدقسمتی سے معاشرے میں پارلرز کا رحجان دن بدن بڑھ رہاہے اور مختصر تربیت نے اس کام کو انتہائی آسان اور سادہ سمجھ کر خواتین کو سہولت مہیاکیاجاتاہے لیکن ایسا ہزگز نہیں۔
پشاور کے عائشہ اور اُس کی چھوٹی بہن شائمہ جو ایم بی بی ایس کے طالبات ہیں ہر ماہ خیبر تدریسی ہسپتال (کے ٹی ایچ) میں جلدی امراض کے او پی ڈی میں معائنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب اُنہوں نے دوسال پہلے خاندان میں ایک تقریب کے لئے بیوٹی پارلر سے بالوں کے رنگ اور میک اپ کروائے تھے۔ اُن کے بقول تب سے بال تیزی سے گرنا،سرمیں دانے اور چہرے پر بال نکلنا شروع ہوچکے ہیں جوکہ انتہائی پریشان کن ہے۔ڈاکٹر کے طرف سے اُن بالوں اور چہر ے کے جلد کو بہتر بنانے کے لئے اُن کو کئی سالوں تک علاج جاری رکھنا ہوگا۔
دستاویز کے مطابق رواں سال کے اوائل میں ہیلتھ کئیر کمیشن نے پارلرز کے لئے پوری صوبے میں آگاہی مہم چلایاجبکہ فروری میں صرف پشاور میں کام کرنے والے دو سو پارلرز کے معائینے کرائے گئے جن میں تین کو سیل کردیا جبکہ سترہ کو نوٹس جاری کردی گئی۔ ادارے کے جانب سے اس شرط پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں کیا گیا کہ وہ مستقبل میں ان مسائل کو حل کرائینگے۔پچھلے سال اگست میں بھی پشاور ہی میں 60 پارلرز کو پہلی بار متنبہ کیا گیا تھا۔ کمیشن کے پاس صوبے بھر میں قائم پارلرز کے اعداد و شمار موجود نہیں جن کی بڑی وجہ ادارے کے پاس کم عملہ اور کمرشل مقامات کے بجائے گھروں کے اندر کام کرنا شامل ہیں۔
رابعہ تبسم ایک غیر سرکاری ادارے کے ساتھ کام کررہی ہے۔تقریبات میں شرکت کی بناء پر زیادہ تر پارلر کی خدمات لیتی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ عام میک اپ سے اُن کو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن شادی کے لئے وہ بڑے پالرر کے پاس گئی اور ایک لاکھ روپے پر بات کرلی۔ اُن کا کہنا تھاکہ چہر ے پر کچھ لگایا تو تھوڑی دیر بعد سوجن اور درد شروع ہوئی۔ جب کام کرنے والی خاتون کو بتایا تو جلد سمجھ گئی کہ کچھ مسئلہ ہے، تو اُنہوں نے جلدی سے صحن میں موجود ایلوویرا کے پتے کاٹ کر چہرے پر لگائے جس سے تھوڑی دیر میں تکلیف تو کم ہوئی تاہم مکمل میک اپ کے بعد جب گھر پہنچی تو دوبارہ وہی تکلیف شروع ہوئی۔
ہیلتھ کئیر کمیشن کے مطابق ایک سال کے مدت میں 6ہزار 971طبی مراکز کے معائنے کئے گئے جن میں 1ہزار 569کو نوٹسز جاری کردئیے گئے جبکہ 777کوسیل کردیاگیا ہے۔ادارے کے مطابق مختلف شغبوں میں طبی خدمات پیش کرنے والے کل14ہزار 888ادارے یا کلینک رجسٹرڈ ہے جن میں 686کو آخری بارہ مہینوں میں رجسٹرڈ کردیا گیا ہے تاہم ان میں کوئی پارلرشامل نہیں۔بہتر اور معیاری سہولیات مہیا کرنے کے لئے 110مراکز میں 300عملے کے افراد کو مختلف شعبوں میں تربیت فراہم کی گئی۔
ڈاکٹر شبنم گل کاکہنا ہے کہ بیوٹی سیلون اور استھٹیک کلینکس میں کسٹمر کو پوچھ لینا چاہیے کہ یہاں پر کوئی ماہر موجود ہے کہ اُن کے ساتھ سہولت لینے سے مشورہ یا معائنہ کیاجائے تاکہ مستقبل میں کسی قسم کے نقصان کا سبب نہ بنے۔
غیر معیاری سہولت جلد کے لئے کتنا نقصان دہ؟
ڈاکٹر مہران خان نے بتایا کہ جلد کو خوبصورت بنانے کے چکر میں خواتین مختلف مسائل کے شکار ہوجاتے ہیں جن میں جلد کا اتنا باریک ہوناکہ اُس میں خون کی نالیاں نظر آنا شروع ہوجاتا ہے جبکہ چہرے پر بال نکلنا شروع ہو جاتا ہے جلد سرخ یا جل جاتا ہے اور متاثر فرد معمولی دھوپ میں بھی گھر سے باہر نہیں جاسکتاہے جبکہ علاج کے باوجود بھی مریض کا جلد کالا پڑتا ہے۔
کاسمیٹکس کا معیار
شازیہ پشاور یونیورسٹی ٹاون میں پالر چلا رہی ہے۔ پارلر میں کسٹمر کو دئیے جانے والے سہولیات میں استعمال ہونے والے کاسمیٹکس کے معیار کے حوالے سے بتایاکہ وہ پہلے سے گاہگ کے ساتھ بات کرلیتی ہے کہ اگر اُن کو برانڈ یا کمپنی چیزیں استعمال کرینگے کہ تو اُس کا یہ ریٹ اور آگر وہ عام کاسمیٹکس استعمال کرنا چاہتا ہے تو اُس کے الگ ریٹ ہوگا۔ اُنہوں نے کہا ہمارے کسٹمر کو یہی مشورہ ہوتاہے کہ وہ برانڈیڈ چیزیں استعمال کریں کیونکہ اُن کے نتائج بہتر ہوتے ہیں۔
حمیدہ بی بی پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر ایک بڑا کاسمیٹکس کا دوکان ہے جو پچھلے دو سال سے چلارہی ہے جہاں پر امریکن برینڈز کا سامان مل رہا ہے جوکہ مارکیٹ کے مقابلے میں کئی گنا مہنگا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ جس پلازے میں ان کا دوکان ہے وہاں پر تین بڑے پارلرز کام کررہے ہیں لیکن بہت کم ہی وہ یہاں سے کچھ خریدنے کے لئے آتے ہیں جبکہ انفرادی استعمال کے لئے خواتین زیادہ تعداد میں آتی ہیں۔
پشاور شہر کے مغرب میں واقع تجارتی مرکز کارخانوں مارکیٹ بیرونی ممالک کے کاسمٹکس کے کاروبار کے لئے مشہور ہے۔ سید محمد شنیواری پندرہ سالوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہے،اُن کے بقول موجودہ وقت میں مارکیٹ میں صرف چائنہ کے ہی کاسمیٹکس دستیاب ہیں جبکہ باقی ممالک سے بہت ہی کم آتے ہیں اور اُن کا ریٹ بھی بہت زیادہ ہوتاہے۔ اُنہوں نے کہا کہ گاہگ کم قیمت والے چیزیں زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستان جنرل کاسمیٹکس بل2023کیا ہے؟
خواتین کی خوبصورتی کی حفاظت کا قانون قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی بل رواں سال 31جولائی کو منظور کرلیا۔ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان جنرل کاسمیٹکس اتھارٹی کے قیام کے مسودہ قانون کی منظوری دے دی گئی۔ جعلی کاسمیٹکس بنانے پر تین سال قید اور پچاس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ملے گی۔پاکستان جنرل کاسمیٹکس بل2023کے مطابق جعلی میک اپ مصنوعات کینسر،الرجی اور جلدی امراض کا سبب بنتے ہیں۔بل کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان جنرل کاسمیٹکس اتھارٹی کے قیام عمل میں لایا جائے گا۔
سینیٹ سے منظور بل کے تحت ملک میں میک اپ کے سامان کی درآمد و برآمد، تیاری اور خرید وفروخت کو منظم کرنے کیساتھ کاسمیٹکس کے معیار،لیبلنگ،پیکنگ،مینو فیکچرنگ،اسٹوریج، تقسیم اور فروخت کو اتھارٹی کے تحت ریگولیٹ کیا جائے گا۔بل کے تحت جعلی مصنوعات بنانے پر سخت کارروائی، مشینری ضبط اور جعل سازی کے مقام کو سیل کردیا جائے گا۔ بل کے مطابق عالمی کاسمیٹک مارکیٹ کا حجم341ارب ڈالر ہے جبکہ 2030تک کاسمیٹکس مارکیٹ 560 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
پارلرز پر نظر رکھنا کمیشن کے لئے کتنا مشکل؟
بينظیر شاہ 2015 سے گھر میں پارلر نہ صرف چلارہی ہے بلکہ دوسرے خواتین کو اس حوالے سے تربیت بھی فراہم کررہی ہے۔ اُن کے ساتھ تین خواتین مستقل کام کررہی ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ وہ ہیلتھ کیئر کمیشن کے علاوہ، سیکیورٹی ایکسچینچ کمیشن آف پاکستان، خیبر پختونخوا چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ٹیکنیکل بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈہے۔
ڈاکٹر شبنم گل نے بتایاکہ ہیلتھ کیئر کمیشن کو پہلی بار معلوم ہو چکا ہے کہ صوبے بھر میں پارلرز میں جس قسم کے سہولیات دی جاتی ہے وہ ایک انسان کے لئے کافی خطرناک ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اب تک ادارے کے پاس پورے اعداد وشمار موجود نہیں کیونکہ زیادہ تر پارلرز گھروں کے اندر ہی کام کرتے ہیں جبکہ اس کاروبار سے زیادہ تعداد میں خواتین ہی وابستہ ہے جن کے لئے خواتین عملے کی بڑی تعداد درکارہے جوکہ کمیشن کے پاس موجود نہیں۔
کمیشن پارلرز کے چھان بین کے لئے ایک یا دو دن کے لئے باہر سے خواتین کو بھرتی کرلیتے ہیں جبکہ ادارے کے پاس دس خواتین انسپکٹرز کے آسامیاں خالی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کے جانب سے پابندی کے بناء وہ عمل عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کمیشن نے محکمہ صحت کو ماہر خواتین عملہ آپریشن کے وقت مہیاکرنے کے لئے بھی مراسلہ ارسال کردیا ہے تاہم اُس پر بھی اب تک کوئی عمل نہیں ہوسکا ہے۔
میڈیا کا کردار
ڈاکٹر مہران خان نے کہاکہ چہرے یا جلد کو خوبصورت بنانے کے چکر میں پیدا ہونے والے مسائل میں روایتی اور سوشل میڈیا کا بھی انتہائی اہم کردار ہے کیونکہ اشتہارات کے شکل میں مختلف چیزیں دکھائی جاتی ہے جبکہ اُس کے منفی اثرات سے بے خبر لوگ اس کو خرید کراستعمال کرلیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ اس حصے میں گھریلو علاج بھی کافی زیادہ خطرناک ہے جوکہ عام طوپر خواتین کرتے ہے اور اپنے مرضی سے دوکان سے ادویات خریدلیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ بعض اوقات مریض اپنے ساتھ استعمال کی گئی چیزیں لاتے ہیں تو جب ہم اُن کو دیکھ لیتے ہیں تو اُس پر کوئی معلومات تحریر نہیں ہوتی کہ اس میں کونسی چیزیں شامل ہیں۔
کہاں سے میک اپ کرایا جائے؟
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے جلد کے خوبصورتی کے حوالے سے 23 مختلف اقسام کے سہولیات کی نشاندہی کرائی ہے کہ ان کو بغیر ڈاکٹر یا سند یافتہ فرد کے تجویز کے بغیر قانونی جرم قرار دیاگیا ہے۔
ڈاکٹر شبنم گل نے بتایا کہ پی ایم ڈی سی نے جلد کو مختلف درجوں میں تقسیم کردیا ہے اور ہر ایک حصے میں کام کرنیو الے ماہر بندے کی ذمہ داری قراردی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ ہر ایک پارلر کا کمیشن کے ساتھ رجسٹریشن ضروری نہیں البتہ جوکہ طبی سہولیات مہیا کررہاہے تو اُن کے لئے لازمی ہے کہ وہ درکار لوازمات پورا کرکے اپنا رجسٹریشن کریں۔ اُن کے بقول جب کوئی پارلرکے پاس جاتی ہے اور عام میک اپ کے بجائے وہ کوئی بڑی سہولت استعمال کرنا چاہتی ہے تو وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے پاس ماہر طبی عملہ موجود ہے کہ نہیں۔
ڈاکٹر مہران خان نے بتایا کہ جلد کو خوبصورت بنانے کے لئے تمام سہولیات ماہر ڈاکٹر بھی مہیا کرتاہے اور بہتر یہی ہے کہ کسی جلد کے ماہر ڈاکٹر کے مشورے سے کام کریں تاکہ مستقبل میں کوئی مسئلہ پیش نہ آئے۔