سیدرسول بیٹنی
نورانہ بی بی خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک کے گاؤں (اردو کلے) سے تعلق رکھتی ہے۔ٓآٹھ ماہ قبل انکی چھوٹی بہن عمرانہ بی بی کا انتقال بریسٹ کینسرجیسے موذی مرض سے ہوا جسکی سب سے بڑی وجہ بیماری سے لاعلمی اور غربت تھی۔انہوں نے بتایا کہ اُنکی شادی شدہ بہن کی دو بچے رہ گئے ہیں جن میں 17 سال کی بیٹی اور 14 سال کا بیٹا شامل ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ دس ماہ قبل میرے بہن کی دائیں چھاتی میں درد محسوس ہوا تو جب ڈاکٹر کو دکھایا اور ٹیسٹ کروائے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ چھاتی کے کینسر کا شکار ہے۔
نورانہ بی بی نے بتایا کہ بہن کا شوہر پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور ہیں اوراکثر رزق کمانے کے سلسلے میں گھرسے باہر ہوتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی اوقات کے مطابق بہن کا خوب علاج کیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی اور موت کے منہ میں چلی گئی۔
پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ہر سال ماہ اکتوبرکو بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کا سرطان سے آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس میں نچلی سطح سے لے کر پالیسی سازوں تک ہر کسی کو شامل اس مہم کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ پنکتوبر قومی آگاہی مہم کا مقصد لوگوں میں بریسٹ کینسر نامی جان لیوا بیماری کے متعلق شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔
پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا و ضم اضلاع کی صدر ڈاکٹر صائمہ عابد نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو چھاتی کا کینسر لاحق ہے۔انہوں نے کہا کہ سینٹرل کینسر رجسٹری میکانزم کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں بریسٹ کینسر کے مریضوں کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ملک میں ہرسال 90 ہزار خواتین میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ سالانہ 40 ہزار خواتین اس مرض سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صائمہ عابد نے کہا کہ ہر سال خیبر پختونخوا میں چھاتی کے کینسر کے تقریباً 15,000 نئے کیسز رجسٹر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کے چیلنجز میں ناخواندگی، آگاہی اور معلومات کی کمی، سماجی بدنامی، ناکافی طبی سہولیات اور ماہرین کی کمی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگربریسٹ کینسر کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص ہو جائے تو زندہ رہنے کے امکانات 90 فیصد سے زیا دہ ہیں۔
عائشہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہے اور پچھلے ایک سال سے علاقے میں ایک امدادی ادارے کے ساتھ کا م کررہی ہے اور یہی اُن کے خاندان کے آمد ن کا واحد ذریعہ ہے۔اُنہوں نے اپنے بیماری کے بارے میں بتایا کہ ایک سال پہلے چھاتی کے بائیں طرف میں درد محسوس ہونا شروع ہوئی،گھر میں معمولی دوائی لیکر کچھ حد تک درد تو کم ہوجاتا لیکن ساتھ بخار کی بھی شکایت پیدا ہوتی تھی۔
اُن کاکہنا ہے کہ جب ماں کو تکلیف کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے مشورہ دیا کہ معائنے کے لئے قریب سرکاری ہسپتال چلی جائے،لیکن باربار وہاں سے علاج کرنے کے باوجود بھی کوئی خاص فرق نہیں ہوا لیکن جب الٹراساؤنڈ کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ چھاتی کے بائیں حصے میں گلٹی ہے۔عائشہ کو اندازہ ہواکہ وہ اُن کا سامنا ایک جان لیوا مرض کینسرسے ہے لیکن اُن کو شرم اور غربت کی وجہ سے ممکن نہیں تھاکہ وہ گھر میں کسی کو بتائے لیکن آفس میں کام کرنے والے دوسرے خواتین نے اُن کو علاج کروانے میں اُن مدد کی اور پشاور کے ایک سرجن نے اُن کی معمولی سرجری کرکے بروقت گلٹی نکال دی۔
ڈاکٹر صائمہ عابد کے مطابق اس بیماری کے 4 مراحل ہوتے ہیں۔مریض اگر پہلے مرحلے میں رجوع کریں تو90 فیصد،دوسرے مرحلے میں 80 ،تیسرے میں 70 اور چوتھے مرحلے میں 60 فیصد صحت مند ہونے کے چانسز ہوتے ہیں۔ان کے مطابق خواتین کی اس جان لیوا بیماری کی علامات کو نظر انداز کرنے کے پیچھے کچھ عوامل ہیں جیسے کہ اس مرض بارے میں لاعلمی، میموگرام کی سہولت کی عدم دستیابی نسوانیت ختم ہونے کی تشویش اور اس بیماری سے جڑے سماجی معاملات سر فہرست ہیں۔
خیبر پختونخوا کمیشن برائے وقار نسواں کے چیئرپرسن ڈاکٹر رفعت سردار نے بتایا کہ بریسٹ کینسر کے حوالےسے جو میڈیا میں جو اعداد وشمار رپورٹ ہورہے ہیں یہ سارے اندازے ہیں۔ہماری اطلاع کے مطابق صرف پنجاب نے یہ ڈیٹا جمع کرنا شروع کیا ہے باقی کسی صوبے میں اس حوالے سے ڈیٹا جمع نہیں ہورہا۔انہوں نے کہا کہ کمیشن کے پاس تو محدود وسائل ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہم ہر سال کوشش کرتے ہیں کہ ایک ہفتہ بریسٹ کینسر کے حوالے سے منائیں جس میں آگاہی سیمنارز منعقد کرتے ہیں۔
ڈاکٹررفعت سردار نے بتایا کہ کمیشن ابھی پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر جینڈرمنیجمنٹ انفارمیشن سسٹم بنا رہے ہیں جس میں خواتین کے حوالے سے جتنا بھی ڈیٹا ہوگا تو وہ ہم جمع کرینگے.انہوں نے کہا کہ جی آئی ایم ایس کے تحت ہم سارے محکموں سے خواتین کا ڈیٹا مانگیں گے جو کمیشن عوام کے آگاہی کیلئے شائع کرے گا۔چیئرپرسن نے کہا کہ محکمہ صحت کو چاہئے کہ وہ پولیو،ملیریا اور دوسرے موذی امراض کی طرح بریسٹ کینسر کی مریضوں کیلئے بھی رجسٹری میکانیزم بنائیں تاکہ اصل اعداد وشمار کو معلوم کیا جاسکے۔
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے کینسر رجسٹری کے ٹیومر رجسٹرار ظفر خٹک نے اس حوالے سے بتایا کہ فی الحال پورے ملک کی سطح پر بریسٹ کینسر کی مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا نہیں کیا جاتا کیونکہ پاکستان میں اس وقت نیشنل کینسر رجسٹری فعال نہیں ہے۔انہوں نےکہا کہ ہمارے ادارے نے یکم جنوری 2018 کو کینسر رجسٹری کا نظام قیام عمل میں لایا ہے جس کے اندر ہم کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ باہر کے ممالک میں نیشنل کینسر رجسٹریز موجود ہوتی ہے جہاں پر پورے ملک کی مریضوں کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے،اُن کا کہنا تھا کہ کینسر کی روک تھام کی حوالے سے امریکہ میں وسیع پیمانے پر کام ہورہا ہے جس کی بدولت وہاں کینسر کی جلد تشخیص کی شرح بہت بڑھ گئی ہے اور بروقت علاج کی وجہ سے کینسر کے 24 لاکھ افراد کی جان بچانا ممکن ہوا ہے۔انکے مطابق 1991 میں امریکہ میں کینسر کے مریضوں کی جو شرح اموات تھی،2015 کے دوران اس میں 26 فیصد کمی آئی ہے۔اسی طرح 1989 میں وہاں بریسٹ کینسر کی شرح اموات 33.2 فی لاکھ خواتین تھی جو 2015 میں 39 فیصد کم ہوکر صرف 20.3فیصد رہ گئی ہے۔
ظفر خٹک نے بتایا کہ جنوری 2018 سے لے کر دسمبر 2020 تک 1340 بریسٹ کینسر کے مریضوں نے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کا رخ کیا جس میں 1326 زنانہ اور 14 مرد مریض تھے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کینسر رجسٹری کے آنے سے ملک بھر میں کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا ہوگا جو کہ امیڈیکل طلبہ مستقبل میں تحقیق کیلئے استعمال کرینگے اور اس طرح اس ڈیٹا سے محکمہ صحت و محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کے نافذ میں رہنمائی ملے گی۔
ملک میں نیشنل کینسر رجسٹری کے قیام کیلئے منسٹر ی آف نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کی جانب سے 6 جنوری 2020 کو وزارت صحت کے حکام اور سینئر ڈاکٹرز پر مشتمل 15 رکنی نیشنل سٹیرنگ کمیٹی بنائی گئی، جو کہ نیشنل کینسر رجسٹری کے قیام میں اپنی تجاویز پیش کرینگے اور آئندہ کی لائحہ عمل طے کرینگے۔
پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل میں تعینات ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ نیشنل انسٹیوٹ آف ہیلتھ کے ٹیگ سیکشن میں نیشنل کینسر رجسٹری کیلئے ایک الگ ایپ تیار کیا گیا ہے جس میں سارے ملک سے کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا۔ذرائع نے بتایا کہ ہم نے ملک کے تمام بڑے ہسپتال جہاں کینسر کا علاج کیا جاتا ہے کہ سربراہان کو مراسلے بھیج دیئے ہیں کہ وہ سال کے آخر میں رضا کارانہ طور پر ہمارے ساتھ کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا شیئر کریں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت ایک صوبائی سبجیکٹ بن گیا ہے اس حوالے سے اب وفاقی حکومت کو ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ ملک بھر میں وہ ہسپتال جہاں کینسر کا علاج ہوتا ہے انکو اس بات کا پابند کیا جائے تاکہ وہ لازمی طور پر سال کے آخر میں نیشنل کینسر رجسٹری کو اپنا ڈیٹا بھیجے تاکہ ملکی سطح پر مستند اعداد وشمار پر مبنی متفقہ رپورٹ تیار کرنے میں مدد ملے۔