سیدرسول بیٹنی
خوبصورت جسمامت کی حامل اور چہرے پر مسکراہٹ بھکیرے 25 سالہ نوجوان خواجہ سراء مایہ ملک نے آنکھ تو کراچی میں کھولی لیکن گھر کا چولہا چلانے اور خود ایک بہتر زندگی گزارنے کیلئے وہ آجکل خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں گزشتہ کئی سالوں سے اپنے گُرو کے پاس رہتی ہے جو اب انکا والدین کی طرح خیال رکھتا ہے۔11 برس کی عمر میں انہوں نے اپنے گھر کو اس لئے خیرباد کہا کہ وہ بچپن سے ہر وقت لڑکیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور لڑکیوں والی حرکتیں کرتی تھیں جس کی بنیادی وجہ اُنکے بدن میں زنانہ روح کی موجودگی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ فیلڈ میں آنے کی بڑی وجہ غربت اور تنگ دستی تھی کیونکہ انکی خاندان میں تین بہنیں ایک بھائی اور بوڑھے والدین شامل ہیں،والد ریٹائرڈ ہوچکے تھے تو کمانے والا کوئی نہیں تھا تو پھر مجھے میدان میں آنا پڑا اور آجکل ناچ گانے اور فنکشنز میں شرکت کے ذریعے اپنا بھی اور گھر والوں کا پیٹ پال رہی ہے۔فیلڈ میں لوگوں کے رویوں کے متعلق انہوں نے کہا کہ ہر شعبے میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں لیکن برداشت کرنا پڑتا ہے اور ہمارے فیلڈ کا تو نام ہی برداشت ہے۔
مایہ ملک نے کہا کہ انکے پاس نہ توزندگی میں کوئی ارمان ہے اور نہ ہی وہ دل رکھتی ہے کیونکہ یہ دل والے احساسات اور معاملات کے ہوتے ہوئے آپ اس فیلڈ میں نہیں رہ سکتے۔انہوں نے عوام اور حکومت سے گزارش کی کہ جتنا ہوسکے ہمیں سپورٹ کیا جائے جس طرح ایک عام انسان باعزت زندگی گزارتا ہے تو اس طرح ہمیں بھی جینے کا حق دیا جائے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی کارکن تیمور کمال کا کہنا ہے کہ ملک میں خواجہ سراؤں کے لیے سماجی و معاشی حقوق کی پالیسی اور قانون کی عدم موجودگی کے باعث یہاں ان افراد پر قاتلانہ حملے، جنسی و جسمانی تشدد کے زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 2015 سے لے کر اب تک صوبے میں 81 خواجہ سراء قتل ہوئے ہیں جن میں 7 سات اسی سال میں مارے گئے ہیں اور اسی طرح تقریباً دو ہزار خواجہ سراؤں کو مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
تیمورکمال کے مطابق سنہ 2016 میں پشاور میں علیشا نامی خواجہ سرا کے قتل کے الزام میں صرف ایک ملزم کو موت کی سزا سنائی گئی تھی مگر بعدازاں اس ملزم کو بھی سات ماہ پہلے عدالت نے بری کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ان واقعات میں نامزد ملزمان کے خلاف پولیس کی جانب سے کمزورایف آئی آر اور ناقص تفشیش کی وجہ اکثر کیسیز میں ملزمان باعزت بری ہوجاتے ہیں یا بعض کیسز میں راضی نامے ہوجاتے ہیں۔تیمورکمال نے کہا کہ خواجہ سراء کمیونٹی ایک کمزور طبقہ ہے لہذا ایسے کیسز میں ریاست کو خود مدعی ہونا چاہئے تاکہ تشدد کے واقعات میںملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں خواجہ سراء کمیونٹٰی کی صدر اور گُرو لیلیٰ گُل نے بتایا کہ مسائل تو بہت زیادہ ہیں لیکن اس وقت ہمارا سب سے بڑامسئلہ شناختی کارڈ کے حصول کا ہے۔2018 کی قانون کی رو سے ہر اُس بندے کو خواجہ سراء تسلیم کیا جائے گا جس کے پاس ایکس والا شناختی کارڈ ہواس حوالے سے میڈیا میں بہت بولا گیالیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایکس والے کارڈ ہم اس لئے نہیں بنا رہے ہیں۔
انہون نے کہا کہ ایک تو اس سے ہمیں مذہبی فرائض حج وعمرہ کی ادائیگی نہیں کرسکتے اور دوسری بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے بنانے سے ہمارا اپنے خاندان اور گھر والے کے ساتھ بالکل رشتہ ختم ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کی خوف سے ہم یہ کارڈ بنوانے سے کتراتے ہیں اس لئے ہم نے میل والے کارٖڈ رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت خواجہ سراؤں کی نشاندہی کیلئے سپیشل پرسنز کی طرز پرایک خاص لوگو یا نشان بنائیں تاکہ وہ مرد یا عورت کی شناختی کارڈ بھی رکھیں اور یہ بھی ظاہر ہو کہ وہ خواجہ سراء ہے۔
خواجہ سراؤں کے تدفین کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری کمیونٹی کے خلاف بہت افواہیں مشہور ہے کہ انکو رات کے وقت دفنایا جاتا ہے یا انکو بالکل دفنایا ہی نہیں جاتا لیکن یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے،ہم مسلمان ہیں،ہمارے جتنے بھی ساتھی فوت ہوچکے ہیں تو انکے باقاعدہ جنازے ہوئے ہیں یعنی اگر میل خوا سراء ہے تو میل والا جنازہ ہوتا ہے اور اگر فی میل خواجہ سراء کا جنازہ ہوتا ہے اور عوام بھی اس میں شرکت کرتے ہیں۔
لیلیٰ گُل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہمارے فلاح وبہود کیلئے کچھ کریں فنکشنز کے علاوہ ہمارا کوئی دوسرا آمدنی کا وسیلہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس نہ تو نوکریاں ہیں،نہ ہم چوری یا ڈاکہ مارسکتے ہیں اور نہ ہی بھیک مانگ سکتے ہیں۔اپنے گھروں سے بے دخلی کے بعد وہ شہر میں کرایوں کے مکانات میں رہتے ہیں لہذا حکومت کو چاہئے کہ ہمارے لئے رہائش کا بندوبست کریں جس کے لئے ہمیں کوئی خاص کالونی یا بلڈنگ بنائیں تاکہ شہر کے تمام خواجہ سراء اکھٹے ایک جگہ پر رہ سکیں۔
شہر میں خواجہ سراؤں کی تعداد اورحکومتی امداد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہاں ڈٰی آئی خان میں سوکے قریب ٹرانس جینڈر رہائش پزیر ہیں لیکن ابھی تک سرکار کی جانب سے ہمیں ایک روپیہ تک نہیں ملا بس اعلانات ہوجاتے ہیں اور پھر آخر کار اعلان ہی رہ جاتے ہیں اگر ہمیں تھوڑا بڑا سپورٹ ملی ہے تو وہ مختلف این جی اوز کی طرف سے ملی ہے چاہے وہ لاک ڈاؤن ہو یا ابھی سیلاب کی صورتحال کے وقت تھی۔
خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کی آبادی
ملک اور صوبے میں خواجہ سراؤں کی اصل تعداد معلوم نہیں اور نہ باقاعدہ طور پر اس کے لیے حکومتی سطح پر کوئی اقدم اُٹھایا گیا ہے۔چھٹی مردم شماری کے مطابق ملک میں 10418 خواجہ سرا موجود ہیں جن میں 913 خیبرپختونخوا اور 27 کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہے۔
حکومت پاکستان نے مئی سنہ 2018 میں خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے قانون منظور کیا تھا جس کے تحت انھیں شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ بنوانے کا حق دینے کے ساتھ ساتھ گھر یا عوامی مقامات پر ہراساں کرنے کی ممانعت، تعلیم، خصوصی طبی سہولیات، زبردستی بھیک منگوانے پر پابندی اور جیلوں میں الگ بیرک میں رکھنے کا کہا گیا تھا۔اس قانون کے تحت خواجہ سراؤں کو اپنی مرضی سے قومی ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈ میں اپنی جنس کی تبدیلی کا اختیار بھی دیا گیا تھا تاہم مذکورہ قانون میں جنس کے تبدیلی کی شق پر نہ صرف ملک میں مذہبی جماعتوں نے اعتراضات اُٹھائے بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس کو اسلام کے منافی قرار دیا۔
موجودہ وقت میں یہ کیس وفاقی شریعت عدالت میں زیر سماعت ہے جس کے وجہ سے اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔کیس کی تازہ ترین احوال جاننے کیلئے جب فیڈرل شریعہ کورٹ کے ترجمان عصمت علی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ کیس 30 ستمبر 2020 کو فائل کیا گیا تھا،کیس زیرسماعت ہے اور ابھی 26 ہائرنگ ہوئی ہے۔
پچھلے سال مئی کے مہینے میں انور زیب خان، سابق صوبائی وزیر برائے زکوٰة ، عشر،سماجی بہبود و ترقی نسواں نے صوبے میں خواجہ سرائوں کی فلاح و بہبود کے لیے صوبائی اسمبلی میں ٹرانسجینڈر انڈومنٹ فنڈ قیام کا بل پیش کردیا۔جس کا مقصد صوبے میں آباد ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے تھے۔ اس مجوزہ قانون کے سیکشن 3کے مطابق100 ملین روپے کے ابتدائی سرمائے کے ساتھ خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کا ٹرانسجینڈر انڈومنٹ فنڈ بل قائم کیا جائے گا۔مجوزہ بل کے سیکشن 4 کے مطابق اس فنڈ کو خواجہ سراؤں کی فلاحی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جائے گا تاکہ انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے میں لایا جا سکے۔ اس کے علاوہ چھوٹے کاروبار اور کاروباری ترقی کے لیے ٹرانس جینڈر افراد کو مالی مدد اور چھوٹے پیمانے پر بلا سود قرضے بھی فراہم کرے گا۔
خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز کے کوارڈینٹر قمرنسیم نے مذکورہ بل کے حوالے سے بتایا کہ خیبر پختونخوا ٹرانس جینڈر پرسنز انڈومنٹ فنڈ 2022 صوبائی کابینہ سے تو پاس ہوگیا ہے لیکن صوبائی اسمبلی سے ابھی اسکی منظوری باقی ہے۔اسمبلی سے منظوری کے بعد اس کے نفاذ کے قوانین بنائے جائیںگے۔بل کے مسودہ میں ذکر شدہ منیجمنٹ کمیٹی ضلع کی سطح پر بنائی جائیگی جس میں ضلع کے تمام متعلقہ افسران شامل ہونگے۔انہوں نے کہا کہ رولز میں یہ بھی طے کیا جائےگا کہ فنڈ کی رقم کیسے اور کن طریقوں پر خرچ ہونگے لیکن ابھی تک اس بل نے قانون کی شکل اختیار نہیں کیا اس لئے قبل از وقت کچھ کہنا بے معنی ہوگا۔
قمر نسیم نے کہا کہ اس حوالے سے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے سیکرٹری سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کی سربراہی میں صوبائی سطح پر ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں تمام متعلقہ محکمے شامل ہیں،میں خود بھی اس کمیٹی کا کواپٹیڈ رکن کے طور پر حصہ ہوں۔اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی سطح پر ٹرانس جینڈر پرسنز(پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کا قانون تو بنایا گیا لیکن ابھی تک اسکا عملی نفاذ نہیں ہوسکا ہے،قانون کے رولزآف بزنس کے باوجود بھی حکومت کو قانون کی عمل درآمد کروانے میں مشکلات کا سامنا ہے اورعملی اقدامات کا یہ حال ہے کہ ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس قانون کی نفاذ کیلئے ایک روپیہ بھی اپنی بجٹ میں نہیں رکھا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا برادری کی صدر اور مصالحتی کونسل (ڈی آرسی) کی رکن آرزو خان نے بتایاکہ اب تک صوبے میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے پالیسی اور قانون سازی سے متعلق مشاورتی اجلاسوں میں اُن کی برادری کو نمائندگی کا موقع نہیں دیا گیا اور اس بارے میں انھیں کچھ علم نہیں کہ حکومت کس قسم کا قانون لانا چاہتی ہے۔ انہوں نے صوبے میں خواجہ سراؤں کو تحفظ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں با اختیار بنانے کے لیے حکومتی اعلانات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے لیے پچھلے دور میں بھی حکومت کی جانب سے مختص 20 کروڑ روپے فنڈ میں سے ایک روپیہ بھی خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کیا گیا جبکہ اب اس میں مزید اضافے کا بھی کہا جا رہا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈائریکٹرجنرل (ریسرچ) ڈاکٹرانعام اللہ نے کہا کہ ایک تو 2018 کی قانون میں جو ٹرانس جینڈرز کی تعریف کی گئی ہے وہ غلط ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہرکوئی اپنے مرضی سے اپنی جنس کی شناخت کی کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے تو پورے معاشرہ میں فحاشی پھیلنے کا خطرہ ہے۔انکا کا کہنا تھا کہ فرض کریں اگر کوئی کہتا ہے کہ میں ٹرانس جنیڈر ہوں تو یہ فیصلہ میڈیکل بورڈ کرے گا کہ وہ واقعی ترانس جنیڈر ہے یا نہیں ہے۔
ایکس کارڈ کے حوالے سے ڈاکٹرانعام اللہ نے کہا کہ اسلام میں صرف دو جنس مرد اور عورت ہے،بچہ جب پیدا ہوجاتا ہے تو اس کا تعین اسی وقت ہوجاتا ہے کہ وہ مرد یا عورت ہے،انہوں نے کہا کہ حکومت برتھ سرٹیفکٹ کے بنیاد پر جنس کی شناخت کرنے کی طریقی کار کو اپنالیں تو یہ مسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ہم نے اس قانون سازی کو اسلام کےمنافی قرار دیا ہے فی الحال یہ ایکٹ فیڈرل شریعہ کورٹ میں زیر سماعت ہے جب وہاں سے تفصیلی فیصلہ آئے گا تو اسکی روشنی میں آئندہ کی لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔
محکمہ سماجی بہبود خیبر پختونخوا میں جینڈر سپیشلسٹ مہناز بی بی نے بتایا کہ صوبے میں خواجہ سراؤں کو معاشرتی تحفظ، معاشی اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے لیے پالیسی 2021 آخری مرحلے میں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جب مرکز میں خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے قانون منظور ہوا تو صوبائی سطح پر متعلقہ محکموں اور نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کے حقوق کی بنیاد پر وفاق کے کئی قوانین پر صوبوں میں عمل دارآمد ہو رہا ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کے اعترضات کے بعد مذکورہ پالیسی پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے۔
مہناز بی بی کے بقول آٹھارویں آئینی ترامیم کے بعد صوبوں کو قانون سازی کا اختیار بھی موجود ہے اور اس بنیاد پر خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے لیے الگ ایکٹ پر کام جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ سنہ 2016 میں 20 کروڑ اور سال 2021 کے سالانہ صوبائی ترقیاتی بجٹ میں پچاس کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن مختلف مسائل کی بنا پر فنڈز خرچ نہیں ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق صوبائی حکومت نے اس فنڈ کے تحت خواجہ سراؤں کو ہنر سکھانے، مفت کھانا پینا، رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولت دینے کے ساتھ ساتھ ہنر مند خواجہ سراؤں کے لیے بلا سود قرضے دینے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن خواجہ سراؤں کے طرف سے کہا گیا کہ ہنر سیکھنے کے لیے وقت نکالنا اُن کے لیے ممکن نہیں لہذا اس فنڈ کو نقد شکل میں تقسیم کیا جائے جوکہ ناممکن تھا۔
مہناز بی بی نے بتایا کہ اس وقت پورے صوبے میں 463 خواجہ سراء محکمہ سوشل ویلفیئر کے ساتھ رجسٹر ہیں جبکہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہیں،اصل مسئلہ یہ ہے یہ لوگ رجسٹریشن نہیں کرتے ،انڈومنٹ فنڈ کے پیسوں سے وہی لوگ مستفید ہونگے جو محکمہ سوشل ویلفیئر کے ساتھ رجسٹرد ہونگے۔انہوں نے خیبر پختونخوا ٹرانس جینڈر انڈومنٹ فنڈ ایکٹ کے حوالے سے بتایا کہ یہ ایکٹ سابق صوبائی حکومت کی کابینہ سے منظور ہوا ہے لیکن اسمبلی سے اسکی منظور باقی ہے تا ہم ابھی چونکہ نگران حکومت چل رہی ہے اس لئے حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔