سعدیہ مظہر
شمامہ خواتین کالج ساہیوال کی ایک قابل فخر طالبہ رہی ہیں۔ انہوں نے 2002 سے 2004 تک تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ وہ بہترین مقرر اور شاعرہ بھی تھیں۔ برقعہ اور حجاب بھی شمامہ کی پہچان رہا مگر پھر اچانک وہ اپنے خاندان کے ساتھ شہر چھوڑ گئیں۔ بہت سالوں بعد یہ بات سامنے آئی کہ ان کے مذہبی خیالات دراصل ان کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن چکے تھے اس لیے انہوں نے شہر بدلنے کا فیصلہ کیا۔
پنجاب میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ احمدی خاندان اس وقت چنیوٹ میں "ربوہ” میں آباد ہیں۔
لاہور شہر سے آتے ہوئے اگر آپ ساہیوال میں داخل ہوں تو شہر کے شمال کی جانب پندرہ منٹ کے فاصلے پر ایک چوک ہے جسے کبھی "ختم نبوت” چوک کہا جاتا تھا۔ اس چوک کے دائیں جانب دو منٹ کے فاصلے پر احمدی مذہب کی واحد عبادت گاہ موجود ہے۔
یہ عبادت گاہ شہر کے وسط میں ہوا کرتی تھی، اب تو شہر بہت بڑا ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں احمدیوں کو دین اسلام سے خارج کرنے کے بعد مذہبی انتشار کافی شدت اختیار کر گیا تھا۔ اسی دورا ن ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے اس عبادت گاہ پر حملہ کیا کیونکہ یہ بھی عبادت گاہ تھی اور اس پر کلمہ لکھا گیا تھا، بس وہی مٹانے کا جھگڑا تھا۔ صغیر احمد جو اسی عبادت گاہ کے باہر حجام کے طور پر کام کرتے رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ "اس جھڑپ نے شہر میں خوف کی فضا قائم کر دی کیونکہ دنگا فساد میں کچھ جانوں کا ضیاع بھی ہوا تھا اور پھر انتظامیہ نے اس عبادت گاہ کو سیل کر دیا۔ بظاہر یہ عبادت گاہ تین ماہ کے لیے سیل کی گئی تھی تاہم برسوں گزرنے کے بعد بھی بحال نہیں ہو سکی۔” صغیر کا کہنا ہے کہ "ساہیوال شہر میں اس وقت تقریبا سو کے قریب احمدی آباد ہیں۔ بھٹو نحر کے علاقے کے بالکل سامنے احمدی، عیسائی اور مسلمانوں کے قبرستان بھی پرسکون ہمسایوں کی طرح آباد ہیں مگر احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی شناخت کو چھپانا محفوظ تصور کرتے ہیں۔”
ایک اور شخص علی بتاتے ہیں کہ "اجمل میرا کالج کا دوست تھا۔ پھر میں نوکری کے لیے لاہور چلا گیا اور رابطہ منقطع ہو گیا۔کچھ سال بعد اجمل سے اچانک ملتان کے ایک نجی دفتر میں ملاقات ہوئی اور وہ مجھے دیکھ کر بہت گھبرایا ہوا محسوس ہوا۔ علی کا کہناہے کہ "اجمل نے موقع ملتے ہی مجھ سے کہا کہ یہاں کوئی نہیں جانتا کہ وہ احمدی ہے اس لیے مہربانی کر کے بے دھیانی میں بھی ایسی کوئی بات نہ کی جائے۔” علی بتاتے ہیں کہ اجمل کا کہنا ہے کہ اس کا مذہب اس کی نوکری کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا تھا۔ اس لیے اجمل نے لوگوں سے اپنی مذہبی شناخت ہی چھپا لی اور شہر بھی بدل لیا۔
ساہیوال سے تعلق رکھنے والے سلیم کاٹھیا مذکورہ عبادت گاہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس جگہ ہونے والے فساد کے بعد اس جگہ کا نام "ختم نبوت” چوک رکھ دیا گیا۔اور انتظامیہ نے انتشار مزید پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر چپ سادھ لی تھی۔ کچھ عرصہ بعد جب حالات نارمل ہوے تو اس چوک کو پھر سے پرانے نام "مشن چوک” سے پکارا جانے لگا۔
پاکستان میں سنہ 2017 اور سنہ 1998 کی مردم شماری کا موازانہ کیا جائے تو ملک میں احمدی برادری کی تعداد میں واضح کمی نظر آتی ہے۔
مردم شماری 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق احمدی برادری پاکستان کی مجموعی آبادی کا لگ بھگ 0.09 فیصد ہے جبکہ سنہ 1998 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق احمدی برادری کی آبادی 0.22 فیصد تھی۔
پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق سنہ 2018 میں احمدی ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 67 ہزار بتائی تھی جن کی اکثریت بالترتیب پنجاب اور سندھ میں آباد تھی۔
ایک ریٹائرڈ آفیسر مظفر حسین (جو اس وقت ریٹائرڈ افسر تھے) بتاتے ہیں کہ احمدی مذہب کی عبادت گاہ تقریبا دس مرلے کے رقبے پر محیط ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1987 کا واقعہ ہے کہ میری والدہ مشن ہاسپٹل (عبادت گاہ کے بالکل سامنے) میں زیر علاج تھیں۔ایک روز میری نماز قضا ہو رہی تھی تو میرا ایک احمدی دوست نماز کی ادائیگی کیلئے مجھے اسی عبادت گاہ میں لے گیا۔ گو کہ میں نے ان کی امامت میں نماز ادا نہیں کی مگر تب حالات بہت بہتر تھے۔ مذہب اور عبادت گاہ میں بھی انسانیت اور احترام کو فوقیت دی جاتی تھی۔
پاکستان کے سابق آمر جنرل (ر) ضیا الحق کے دورِ حکومت میں 26 اپریل 1984 کو حکومتِ پاکستان نے حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت 1974 میں غیر مسلم قرار دیے جانے والے احمدی افراد پر اسلامی شعائر اپنانا اور ان پر عمل کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پایا اور احمدی برادری کے افراد پر خود کو مسلمان کہلانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
سائیوال کے ایک کاروباری شخصیت سلطان (فرضی نام) بتاتے ہیں کہ یہاں زندگی خوف کے ساتھ میں گزر رہی ہے۔ بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے یہ بات سمجھانا ضروری ہوتا ہے کہ مذہب پر بات نا کریں۔ مگر دوسرے بچوں کے پوچھنے پر ہمارے بچے گھبرا جاتے ہیں۔
سلطان کا کہنا ہے کہ چکوال میں احمدیت کی بنا پر سکول سے نکالے گئے بچوں کا واقعہ ہم نے اپنے بچوں سے چھپانے کی کوشش کی، اسی طرح ملک میں جہاں کہیسں بھی ہمارے قبرستان مسمار ہوئے یا کسی شخص کو مار دیا جاتا ہے تو یہ سب ہمیں ذہنی اذیت کا شکار کرتا ہے۔
سلطان کا ماننا ہے کہ پرسکون زندگی گزارنے اور محفوظ زندگی کی تلاش نے ہمارے لوگوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ یہاں رہ کر کسی بھی شعبے میں کام کرنا یا نام بنانا بھی ایک لاحاصل کوشش ہے۔
جماعت احمدیہ کے دعویٰ کے مطابق احمدی کمیونٹی کی ہلاکتوں کا سلسلہ یکم مئی 1984 سے شروع ہوا تھا اور گذشتہ 38 برس میں احمدی برادری کے 273 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں پنجاب میں ہوئیں جو کل ہلاکتوں کا 69 فیصد ہے۔
جماعت احمدیہ کے مطابق پاکستان کے صوبہِ پنجاب کی حکومت نے جماعت احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد کی تصانیف پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اِس کے علاوہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے قرآن کریم کے تراجم پر بھی پابندی ہے۔ جماعتِ احمدیہ کو اپنا لٹریچر شائع کرنے اور پاکستان میں اپنے صدر مقام ’ربوہ‘ میں عوامی اجتماعات کی اجازت بھی نہیں ہے۔
احمدی برادری کے لئے ایمبولینس سروس مہیا کرنے والے احمد (فرضی نام) بتاتے ہیں کہ "ساہیوال میں احمدی برادری کا قبرستان تو موجود ہے مگر زیادہ تر یہ اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے چنیوٹ "ربوہ ” کا رخ ہی کرتے ہیں۔ انکا ماننا ہے کہ ربوہ میں قائم انکا قبرستان ان کے پیاروں کے لیے ایک پرسکون آرام گاہ کیونکہ پاکستان میں ہر جگہ خصوصی طور پر پنجاب اور سندھ میں قبرستابوں کی تحقیر کے بعد انہیں لگتا ہے کہ ربوہ ایک محفوظ اور قابل بھروسہ جگہ ہے”۔