انیلہ محمود
سیانے کہتے ہیں جو لوگ وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتے وہ زمانے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس پیچھے رہ جانے کے خوف نے ہم جیسے قلم کے مزدوروں کو بھی تبدیلی کی طرف مائل کر دیا۔قلم کے ساتھ تعلق اور صحافت کا سفر تو کم و بیش دو عشروں پر محیط ہے مگر اس سفر کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کے لئے ایک عزیز دوست نے مائل کیا۔جس نے فون کیا اور دباؤ ڈالا کہ اس طویل سفر کے تجربات کو قلمبند کرو،دوست بھی ایسی جو کچھ کہہ دے تو جان لے کر بھی بات منواتی ہے مگر جان نہیں چھوڑتی۔سو اس کے کہے پر عمل کر رہی ہوں۔ویسے بھی عمر بھر دوسروں کے بارے ہی لکھتے رہے آج اپنے بارے بات کرنے کا موقع ملا تو اسے غنیمت جانا اور قلم تھام لیا،تو احساس ہوا کہ اپنے بارے لکھنا بھی دلچسپ تجربہ ہے۔
سفر کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ زبان و ادب سے دلچسپی کی بناء پر ایم اے اردو کیا بعد ازاں ایم فل اقبالیات کیا۔ساتھ ہی صحافت کا سفر بھی جاری رہا۔ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا،وہاں کے چیف ایڈیٹر نہایت شفیق شخصیت کے مالک تھے،اللہ پاک غریق رحمت کرے وہ اولین اساتذہ میں سے تھے۔پھر چل سو چل مختلف اخبارات میں کام کیا،جہاں ایڈیشن انچارج،ادبی،خواتین،انسانی حقوق اور سیاست کے موضوعات ترجیح رہے۔سنڈے میگزین کی ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کم و بیش 15-14 سال قومی و بین الاقوامی سطح پر آئے روز رونما ہونے والی تبدیلیوں سمیت ہر قسم کے ایشوز کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا،اسکے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی کئی سال کام کیا،جہاں رپورٹنگ کے ساتھ عوامی مسائل بارے پروگرام ہوسٹ کئے اور عوام الناس کی مشکلات کے حل کیلئے متعلقہ اداروں اور حکام بالا تک ان کی آواز پہنچائی۔
سننے اور پڑھنے میں تو یہ تمام سفر بہت خوشگوار محسوس ہوتا ہے مگر ان دو عشروں میں بہت سی مشکلات،رکاوٹوں اور ناروا رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جو برداشت کرنا اگرچہ آسان نہ تھا مگر ہمت کو قائم رکھتے ہوئے اس سفر کو رکنے نہیں دیا۔کہنے کو تو جب ہراسمنٹ کا ذکر آئے تو مردوں کا خیال ہی ذہن میں آتا ہے مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ جتنی بدترین ہراسمنٹ اور ذہنی اذیت خواتین کی جانب سے ہوتی ہے تو لگتا ہے مرد ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔میرے بہت سے تلخ تجربات میں بدترین تجربہ ایک خاتون کا نامناسب رویہ تھا جس کے بلا وجہ بیر باندھنے کی وجہ سے میرے لئے نارمل رہنا،کام کرنا اور اسے برداشت کرنا محال ہوگیا تو ایک اچھے ادارے کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور رات 12 بجے ادارے کو اپنا استعفیٰ ای میل کر دیا۔
یہ میری زندگی کا بدترین واقعہ تھا جسے بھولنا ممکن نہیں۔باقی جہاں تک بات ہے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی تو وہ تو ہمارے ہاں تمام بڑے چھوٹے اداروں میں بالکل عام سی بات ہے۔اچھی تنخواہ اور مراعات پر مردوں کا حق سمجھا جاتا ہے اور خواتین کو صرف بہترین کام کرنے والا ورکر سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔خواتین کی ضروریات اور مسائل کو نہ صرف اداروں میں بلکہ پریس کلب اور صحافتی تنظیموں میں بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔مردوں کے مسائل پر بڑے بڑے احتجاج کئے جاتے ہیں جبکہ خواتین کے مسائل بارے نہ تو کوئی بات کرتا ہے اور اگر بے روزگار ہوجائیں یاجبری برطرفی کاشکار ہو جائیں تو ہماری نام نہاد تنظیموں کے عہدیدار مالکان اور ایڈیٹر صاحبان سے دوستی داؤ پر لگانے کے بجائے خواتین کو انکے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔مگر کچھ باہمت صحافی خواتین جو اگرچہ تعداد میں تو کم ہیں مگر اپنی ساتھی صحافیوں کے حق کے لئے نہ صرف ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں بلکہ ان کا حق ملنے تک چین سے نہیں بیٹھتیں۔
بات کا آغاز کیا تھا تبدیلی کے سفر سے تو ہوا کچھ یوں کہ 2018 میں ایک بزنس ٹائیکون کے قومی اخبار میں ایڈیٹر سنڈے میگزین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھی کہ اچانک احکام صادر ہوئے کہ اخبار کو معاشی بحران کی وجہ سے بند کیا جا رہا ہے،تمام لوگ کل سے نہ آئیں۔اس اچانک جبری برطرفی نے بہت سے گھروں کے چولھے بجھا دیئے مگر پھر وہی بات کہ ہماری محافظ صحافتی تنظیموں نے علامتی بیانوں اور شغل میلے کے سوا کچھ نہ کیا۔اس وقت بھی میں نے تن تنہا بزنس ٹائیکون کے ادارے کے خلاف اپنی 5ماہ کی تنخواہ کی وصولی کے لئے کیس دائر کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے عدالتی فیصلے کے بعد اپنی 5 ماہ کی تنخواہیں وصول بھی کر لیں۔
اس کٹھن وقت میں سوچا کہ آدھی زندگی تو دوسروں کی نوکری اور ان کے اداروں کو کامیابی کی منازل طے کرانے میں گزار دی جس کا صلہ یہ ہے کہ جس نے جب چاہا ادارہ بند کر دیا اور صحافی فٹ پاتھ پر آگیا تو کیوں نہ جو محنت دوسروں کے لئے کر رہے ہیں وہ اپنے لئے کی جائے۔ اس سوچ کے بعد چند ہم مزاج دوستوں نے ساتھ چلنے اور حوصلہ افزائی کی بھر پور یقین دہانی کرائی۔اس کے بعد میں نے اپنی نیوز ایجنسی کا ڈیکلیریشن لیا اسکی ویب سائٹ بنائی اور یوں تین سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا 100سے زائد اخبارات کو خبریں فراہم کر رہی ہوں ۔خاتون کو کامیابی سے ادارہ چلاتے دیکھنا آج بھی مردوں کی اکثریت کے لئے قبول کرنا مشکل ہے،مگر مسلسل محنت اور مستقل مزاجی نے مجھے الحمداللہ عزت و مقام سے نوازا ہے،نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک مجھے پڑھنے والے میری اور میرے کام کی عزت کرتے ہیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنی جانبداری کی وجہ سے عوام میں عزت کھو رہے ہیں،وہاں گزارہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب تک کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی قائم ہو۔میری نظر میں سیاسی جماعتوں کے پے رول پر صرف وہی لوگ کام کرتے ہیں جنہیں اپنی ذات پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ہم جیسے لوگ جو کام کے بل بوتے پر چلنا جانتے ہیں بے شک موجودہ عہد کے تقاضوں کے مطابق اس لحاظ سے کامیاب نہیں ہوتے مگر کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بننا پسند نہیں کرتے۔اس لئے ہم جیسے کام کے دھنی اور غیر جانبدار صحافیوں کے لئے اپنا ذاتی کام اور ڈیجیٹل میڈیا بہترین انتخاب ہے۔میرا اپنی دیگر ساتھیوں کو مشورہ ہے کہ وہ بھی اپنی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کریں ،کیونکہ جتنی محنت سے اور معیاری کام خواتین کر سکتی ہیں وہ مردوں کے بس کی بات نہیں۔میرا خیال ہے اپنے صحافتی سفر کا احوال کچھ زیادہ طویل ہو گیا ہے،سوچتی تھی ”حال دل کس کو سنائیں” تو آج دوست کی وساطت سے موقع ملا تو آپ کے گوش گزار کر دیا۔