سیدرسول بیٹنی
گاؤں میں کوئی ایسا گھر نہیں بچا جس کی کوئی باؤنڈری وال یا کمرہ نہ گر گیا ہوں۔ گاؤں کے اکثر لوگوں کا پیشہ زراعت سے منسلک ہے لیکن اب نہ گھر رہے اور نہ کاشت کیلئے زمین محفوظ رہی۔
ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے 30 کلومیٹر دور مشرق کی طرف واقع گاؤں جبار والا 700 گھرانوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ اگست کے آخری ہفتے کے طوفانوں باشوں اور سیلابی ریلوں نے گاؤں کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔حکومتی امداد کی منتظر یہ لوگ اب اپنی مدد آپ کے تحت اپنی گھروں کی باؤنڈری والز اور کمروں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں مصروف ہیں اور اُنہیں دوبارہ رہائش کے قابل بنا رہے ہیں۔
چہرے پر دور سے بے بسی کے نمایاں نشانات اور پسینے سے ڈوبا گاؤں کے رہائشی لیاقت علی اپنے گھر کے گرے ہوئے دو کمروں کی مٹی اور ملبے کو ہاتھ گاڑی سے نکال رہا ہے۔لیاقت علی نے بتایا کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں آئی اورنہ کسی سروے والے آئے ہیں۔
پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) خیبر پختونخوا کے مطابق صوبے میں 15 جون سے لے کر 15 ستمبر تک طوفانی بارشوں اور سیلاب ریلوں سے کل 306 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں 149 مرد،41 خواتین جبکہ 116 بچے شامل ہیں۔اسی طرح ان واقعات میں 369 زخمی ہوئے ہیں جن میں 156 مرد،79 خواتین جبکہ 134 بچے شامل ہیں۔پی ڈی ایم اے کے رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں 21 ہزار328 مویشیاں بھی ہلاک ہوئے ہیں اس کے علاوہ 91 ہزار 463 گھر،560 سکولز جبکہ 621 دوسرے املاک بھی تباہ ہوئے ہیں۔
طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے صوبے میں سب سے نقصانات ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئی جہاں کل 41 افراد جاں بحق ہوئے، 9 ہزار 442 مویشیاں ہلاک ہوئی جبکہ 75 ہزار 335 گھر تباہ ہوئے ہیں جن میں 33 ہزار 596 مکمل جبکہ 41 ہزار 739 جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔
ضلع ٹانک کے گاؤں شیخ سلطان سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ ختم النساء نے بتایا کہ ان کی اور انکی شوہر کی پوری زندگی کا جمع پونچی یہی اپنے گاؤں میں واقع گھر جو کہ ڈیرھ کنال کے رقبے پر محیط تھا جو حالیہ بارش سے گر گئی ہے۔ختم النساء بی بی نے کہا کہ دو ہفتے قبل ویلیج کونسل کے چیئرمین کے ہمراہ پٹواری بھی آئے تھے جو کہ تباہ شدہ مکانات کی سروے کر رہے تھے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ نہیں ملا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انکے شوہر 50 سال سے اوپر ہیں اور وہ اب مزدوی کے قابل نہیں رہا اور دوسرا یہ کہ ان کی اولاد بھی نہیں ہے تو گاؤں کے لوگ اب اپنی مدد آپ کے تحت چندہ جمع کر رہے ہیں جس کی بدولت ہم دوبارہ اپنی گھر کی تعمیر کرسکیں گے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے تیمور علی کے مطابق صوبے میں 37 ہراز 525 گھر مکمل تباہ جبکہ 53938 کو جزوی طور نقصان پہنچا ہے اسی طرح 29 سکولز مکمل طور پر جبکہ 531 جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں،دوسرے املاک میں 116 مکمل جبکہ 505 جزوی طور پر برباد ہوئے ہیں۔پی ڈی ایم اے رپورٹ کے مطابق جانی نقصانات میں ڈیرہ اسماعیل خان کا پہلا نمبر ہے جہاں کل 41 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 19 مرد،5 خواتین اور 17 بچے شامل ہیں۔ دوسرے نمبر پرضلع سوات ہے جہاں کل 34 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں 27 مرد، ایک خاتون جبکہ 6 بچے شامل ہیں اسی طرح تیسرے نمبر پر ضلع مانسہرہ ہے جہاں کل 22 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں 18 مرد،ایک خاتون جبکہ 3 بچے شامل ہیں۔اس کے علاوہ باقی اموات صوبے کے دوسرے مختلف اضلاع سے رپورٹ ہوئی۔
مویشیوں کی ہلاکت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ہے جہاں 9 ہزار 442 دوسرے نمبر پر ضلع ٹانک میں 10 ہزار 801 جبکہ تیسرے نمبر لوئر چترال ہے جہاں 615 مویشیاں ہلاک ہوئی ہیں جبکہ باقی صوبے کے دوسرے مختلف اضلاع سے رپورٹ ہوئی۔
سیلاب میں گھر کی چھت سے محروم جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی احسان اللہ پیشے کے لحاظ سے مزدور ہیں اور ان کے پانچ بھائی بھی مزدوری کرتے ہیں۔ والد ڈرائیور تھے لیکن اب وہ کام نہیں کر سکتے۔ ان کے گھر میں بیوی بچوں سمیت 20 افراد ہیں اور سب ایک ہی مکان میں رہتے تھے اور اب ان کا یہ مکان نہیں رہا۔احسان اللہ کا تعلق تحصیل پرووا کے مضافات میں گاؤں کچہ ببر سے ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے مکان میں سات کمرے تھے اور ہر بھائی کا ایک ایک کمرہ تھا۔ دو بھائیوں کی شادی کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی تو بھابھیوں کے جہیز کا سامان پڑا تھا، ایک مہینے کی گندم اور آٹا بھی لے کر رکھا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مزدوری کرتے ہیں۔ یہی مکان تھا جو ہمارے گھرانے کا کل اثاثہ تھا لیکن اب وہ مکان نہیں رہا اور ہم کھلے آسمان کے نیچے آ گئے ہیں۔‘
پی ڈی ایم اے کے ترجمان تیمور علی کے مطابق جولائی سے لے اب تک تمام متاثرہ اضلاع کو وزیر اعلیٰ محمود خان کے خصوصی ہدایات کے مطابق ریلیف فنڈ کے تحت 1752 ملین روپے ریلیز کردئے گئے ہیں ۔ ریلیف کارروائیوں کے حوالے سے بتایا کہ متاثرہ اضلاع میں 47192 ٹینٹس، 20341 ترپال شیٹس، 18843 کمبل،9919 پلاسٹک میٹس ، 11838 کچن سیٹس،1249 لائف سیونگ جیکٹس،971 سرچ لائٹس، 9805 تکیے،10998 مچھر دانیاں، 12463 ہائی جین کٹس اور12437 واٹرٹینکس فراہم کر دیئے گئے ہیں۔
ضلع ٹانک کے گاؤں گرہ بلوچ سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بارشوں کے فوری بعد حکومتی امداد کیلئے ہمارے گاؤں کے کونسلر سے تمام متاثرہ لوگوں کے ناموں کا اندارج کیا لیکن کچھ دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرے نام سے انہوں نے راشن لیا تھا اور پھر مجھے حوالے نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور وہ با اثر لوگ ہیں جس کی وجہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق دوبارہ آباد کاری کیلئے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کو 50 کروڑ جبکہ ضلع ٹانک کیلئے 17 کروڑ روپے ہنگامی فنڈ فراہم کئے گئے ہیں اور اسی طرح 15 جون سے لے کر 15 ستمبر تک ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کو 630 ملین جبکہ ٹانک کو 230 ملین روپے ریلیف فنڈ کے تحت جاری ہوئے ہیں۔
سیلاب سے فصلوں کی تباہی:
معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت محکمہ زراعت کے شعبہ کراپس رپورٹنگ سروسز کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث کے پی میں فصلیں اور سبزیاں پانی کی نذر ہوجانے سے کسانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔
محکمہ زراعت کے مطابق کے پی میں مالی نقصان میں پہلے نمبر پر گنے کی 809663 میٹرک ٹن فصل تباہ ہوئی ہے جس کی مالیت 2294 ملین روپے بنتی ہے۔ دوسرے نمبر کھجور کی فصل ہے 371 میٹرک ٹن کجھوربھی ضائع ہوئی ہے جن کی مالیت 2507 ملین ہے جبکہ تیسرے نمبر پر ٹماٹر ہے 17978 میٹرک ٹن ٹماٹر کی فصل تباہ ہوئی ہے جن کی مالیت 1842 ملین بنتی ہے۔
محکمہ زراعت کے ایریڈ ریسرچ کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نعمان لطیف نے بتایا کہ کوہ سلیمان ڈیرہ اسماعیل خان کے شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہے اور لگ بھگ پانچ سو سے ساڑھے پانچ سو کلومیٹر تک طویل ہے، جو خیبر پختونخوا سے پنجاب، بلوچستان اور کچھ حصہ صوبہ سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر اس پہاڑی سلسلے میں تین ہزار فٹ سے زیادہ بلند چوٹیاں ہیں جہاں سردیوں میں برف بھی پڑتی ہے اور اس مرتبہ بارشیں بھی زیادہ ہوئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ چونکہ اس پہاڑی سلسلے میں زیادہ درخت نہیں اور ڈھلوان ہے تو پانی نیچے ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان اور دیگر میدانی علاقوں کی جانب ہی آتا ہے۔
سیلاب سے متاثر بچوں کی صورتحال:
بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسف پاکستان آفس کے مطابق کہ اس سال مون سون میں شدید بارشوں ، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات سے مجموعی طور پر ایک کروڑ 60 لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں جن میں 528 بچوں کی اموات ہوئی ہیں جبکہ ابھی بھی کم از کم 34 لاکھ لڑکیوں اور لڑکوں کو فوری طور پر زندگی بچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے.
بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم ” محفوظ بچپن ” کے بانی بشریٰ اقبال حسین نے حالیہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے بچوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے بتایا کہ شیر خوار بچوں سے لے کر کالج جانے والے بچوں تک سب پریشانی کے عالم میں ہیں اور بیک وقت کئی ایک خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے نا مساعد حالات میں سب سے زیادہ متاثر بچے اور خواتین ہوتے ہیں،وہ علاقے جہاں ابھی پانی کھڑا ہے تو وہاں پرزندگی بچانے کیلئے ابھی بیماریاں پوٹھنے ،ڈوبنے کا خطرہ،سانپ اور بچھو کے کاٹنے کا ڈر،جنسی زیادتی اور اغواء ہوجانے کا خطرہ ہے۔
بشریٰ اقبال نے کہا کہ اگر کہیں بچے کسی ریلیف کیمپ میں پہنچ بھی گئے ہیں تو وہاں بھی انکو بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوتا ہے لیکن مجموعی طور ہر ان بچوں کا ٹراما کتنا بڑا ہے اپنے گھر سے بے گھر ہونے کے بعد غیر یقینی صورتحال کا ٹرامہ، اسی طرح مینٹل ٹرامہ ہے جس کو ابھی تک کوئی نہیں دیکھ رہا اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی بات ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ موسم بدل رہا ہے اور آگے سردیاں آرہی ہے جس میں چھوٹے بچوں کو سردی کا خطرہ بھی ہوتا ہے مچھر اور مکھی کا خطرہ تو الگ ہے ابھی بھی پہاڑوں علاقوں میں راتیں کافی سرد ہوگئی ہیں تو ایسے صورتحال میں ہم بچوں کیلئے کیا کر رہے ہیں۔
سیلاب کی وجوہات:
سینئر صحافی اور تجزکار رفعت اللہ اورکزئی نے موجودہ سیلاب کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک بات کلائمیٹ چینج کی ہے تو پاکستان ان پانچویں یا چھٹے نمبر پر شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بہت متاثر ہوا ہے۔ان تبدیلیوں میں پاکستان کا ایک فیصد سے بھی کم کردار ہے جن میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی،پہاڑوں کو توڑنا اور پانی کوا سٹور نہیں کرنا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار وہ ممالک ہیں جہاں بہت زیادہ صنعتیں ہیں اور وہ کثیر تعداد میں گرین ہاؤس گیسز پیدا کرتے ہیں جس کی اصل وجہ زیادہ حرارت ہے ہمارے پڑوس میں چین اور انڈیا ہے جہاں بہت زیادہ صنعتیں ہیں اور وہاں بہت زیادہ حرارت پیدا کیا جاتا ہے اسی طرح یورپی ممالک اور امریکہ ہوگیا جن کا موسمیاتی تبدیلیوں میں بہت زیادہ کردار ہیں۔رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریباً ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے۔حالیہ سیلاب بھی ان تبدیلیوں کی وجہ سے آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کلائمیٹ چینچ ایک صوبائی سبجیکٹ بن گیا ہے لیکن ہماری صوبائی حکومت اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ ابھی تک صوبے میں کلائمیٹ چینچ کی ایک الگ منسٹری قائم نہیں ہوئی ہے اور موجودہ وقت میں یہ محکمہ جنگلات کی ایک ڈویژن کے طور پر قائم ہے۔ان کے مطابق کچھ دن قبل صوبائی کلائمیٹ چینج پالیسی 2022 آگئی ہے جن کا ایکشن پلان بھی حکومت کی طرف سے منظور کیا گیا ہے۔
کلائمیٹ چینج کے حوالے سے صوبائی حکومت کے اقدامات:
خیبرپختونخوا کے وزیر جنگلات و ماحولیات اور جنگلی حیات سید محمد اشتیاق ارمڑ نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے پہلی بار صوبائی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کو تجدید کرکے صوبائی موسمیاتی تبدیلی کے عملی منصوبہ کی منظوری دی، اس پالیسی کا مقصد تحفظ ماحولیات اور صوبے میں بڑھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنا اور صوبے کو ایک پائیدار ماحولیاتی انفراسٹرکچر سے جوڑنا ہے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ خیبر پختونخوا موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے حوالے سے پاکستان کے حساس اور متاثرہ صوبوں میں سے ہے،ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے صوبائی موسمیاتی تبدیلی کا عملی منصوبہ2022 صوبائی اور قومی سطح پر قابل ستائش کوشش ہے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ آٹھارویں ترمیم کے بعد خیبر پختونخو پہلا صوبہ ہے جنہوں صوبائی سطح پر پروانشل کلائمیٹ چینج پالیسی اور ایکشن پلان باقاعدہ طور پر صوبائی کابینہ سے منظور کیا ہے۔
متاثرین کے دوبارہ آبادی کاری و بحالی کیلئے صوبائی حکوت کا لائحہ عمل:
ڈائریکٹر جنرل پروانشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی شریف حسین نے بتایا کہ صوبائی حکومت نےسیلاب سے متاثرہ مکانات کے سروے کے لئے موبائل اپلیکیشن آئی ٹی بورڈ کے تعاون سے تیار کرلی ہے جس کی مدد سے متاثرہ علاقوں میں تباہ شدہ گھروں کا معاوضہ دینے کے لیے 15 ستمبر سے ایک مشترکہ سروے کا آغاز کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رقم مرحلہ وار متاثرین میں تقسیم کیا جائے گا اور جوشفافیت اور غیر جانبداری پر مبنی ہوگا۔شریف حسین نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اس مون سون کے دوران مکمل تباہ شدہ گھروں کے مالکان کو اسپیشل پیکج کے تحت چار لاکھ روپے دئیے جائیں گے جبکہ جزوی نقصان کی صورت میں ایک لاکھ 60 ہزار روپے دئیے جائیں گے۔
ضلع ٹانک میں ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹٰی کے اہلکاراور ضلعی ریلیف سروے کمیٹی کا رکن زبیر لوہانی نے بتایا کہ ہماری ٹیم میں پانچ ارکان شامل ہوتے ہیں جن میں ایک اسسٹنٹ کمشنر،ایک مانیٹرنگ آفیسر جو کہ اسسمنٹ فیلڈ آفیسرکے طور پر کام کرتا ہے،اس کے علاوہ تحصیلدار، سی اینڈ ڈبلیو ،ایریگیشن اور پاکستان آرمی سے ایک ایک رکن کمیٹی کا حصہ ہوتا ہے۔سروے کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ ٹیم پہلے گھروں کا وزٹ کرتے ہیں اور پھر صوبائی کی گائیڈ لائینز کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہے پھر جاکرہم متعلقہ گھر کا سروے کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دن بھر جتنے گھروں سروے ہوجاتا ہے پھر شام کو ڈی سی آفس میں ڈی ڈی ایم یو (ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ یونٹ) کی میٹنگ ہوتی ہے جس کو ڈپٹی کمشنر خود چیئر کرتا ہے۔اس کے علاوہ میٹنگ میں باقی تمام متعلقہ افسران شرکت کرتے ہیں جہاں ہر کیس کو مختلف زاویوں سے چیک کیا جاتا ہے اورآخر میں ڈی سی صاحب کے اپرول دینے کے بعد پھر مزید کاروائی کیلئے اسکو پی ڈی ایم اے بھیجا جاتا ہے۔اعداد وشمار کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فی الحال کچھ نہیں بتا سکتے کیونکہ سروے ابھی جاری ہے جب سارا کام مکمل ہوجائے تو پھر تفصیل کے ساتھ تمام اعداد وشمار سامنے آجائینگے۔