خیبرپختونخوا میں 2021 کے دوران 135 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا

ددد.webp
سلمٰی جہانگیر
"ماہ نور دکان سے اپنے لیے کوئی چیز خریدنے گئی اور پھر گھرواپس نہیں آئی۔ کئی گھنٹے ڈھونڈنے کے بعد ہمیں ماہ نور کی لاش مل گئی، اس کے سر پر چوٹ کا نشان تھا اور دوپٹے سے اس کو پھانسی دی گئی تھی” پشاور کے رہائشی ماہ نور کے والد نے بتایا۔
3 جولائی کو پشاور کے علاقے صدرر کینٹ ریلوے سٹیشن میں ایک کم سِن بچی ماہ نور جن کی عمر 11 سال تھی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ ماہ نور کے والدین کے مطابق بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی . پوسٹ مارٹم کروانے کے بعد رپورٹ میں ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق ہوئی تھی.
والد نے پولیس کو بتایا کہ ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں.
 تفصیلات کے مطابق  پشاور میں جولائی کے مہینے کے تین ہفتوں کے دوران تین بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور جن میں سے دو بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے تدارک پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "ساحل” کی رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں 2021 میں کم از کم 3,852 بچوں، جن میں2,068 لڑکیاں اور 1,784 لڑکے شامل ہیں،کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان پشاور کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر عمران ٹکر کے مطابق خیبر پختونخوا معلومات تک رسائی قانون 2013 کے تحت لی گئی اعداد وشمار کے مطابق نومبر 2021 تک خیبر پختونخوا میں ایک سال کے دوران کل 1 سو 35 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں 65 لڑکیاں جبکہ 70 لڑکے شامل تھے اور ان کی عمریں 1 ایک سال سے 5 پانچ سال کے درمیان تھیں۔
اسی طرح سال 2020 میں کل 3 سو 23 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 2 سو 72 لڑکے جبکہ 51 لڑکیاں شامل تھیں۔ 7 سات کیسز ان بچوں کے رجسٹرڈ ہوئے جو جنسی تشدد کے بعد قتل کئے گئے تھے۔ قتل ہونے والوں میں 3 تین لڑکے اور 4 چار بچیاں شامل تھیں۔
 پشاور صدر کے علاقے کالا باڑی میں ایک اور7 اور سات سالہ حبہ نامی بچی جنسی تشدد کا نشانہ بنی اور بعد ازاں اس کو قتل کیا گیا۔بچی کی لاش مسجد کی حدود سے برآمد ہوئی۔ بچی کے گھر والوں کے مطابق بچی دوپہر کو گھر سے 10 روپے لے کر چلی گئی لیکن گھر واپس نہ آئی اور شام کو مسجد کی حدود سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ بچی کے دادا کے مطابق اس کو ذبح کر کے قتل کیا گیا۔گھر والوں کے مطابق غربی تھانے میں رپورٹ درج کرانے کے بعد پولیس کو مسجد سے اس کی لاش ملی۔
ایک دفعہ پھر 10 جولائی کو پشاور صدر کے علاقےگلبرگ میں 5 سالہ بچی کونامعلوم افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔گلبرگ سے تعلق رکھنے والے بچی کے والد حنیف اللہ خان نے پولیس کے پاس رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا کہ ان کی بچی نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی تھی، انہوں نے اس کو ہسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے ان کو بتایا کہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے جس کے بعد انہوں نے نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کرا دی۔
دوسری جانب ایک اور واقعہ رونماں ہوا پشاور کوہاٹی کی رہائشی ریحانہ جنکی عمر پینتالیس سال ہے نے بتایا کہ”جب مجھے ڈاکٹر نے بتایا کہ اپکی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین اور سر سے آسمان کسی نے کھینچ لیا۔”ریحانہ نے بتایا کہ انکی بیٹی کائنات(فرضی نام) گورنمنٹ گرلز ھائی سکول میں ساتویں جماعت کی طالبہ ہے۔
انکے مطابق چھ نومبر 2021 ہفتہ کے دن کائنات معمول سے دیر سے گھر پہنچی۔پوچھنے پر ماں کو بتایا کہ اسکی طبیعت خراب ہے۔اسی رات کو کائنات کی طبیعت بے حد خراب ہوئی اور پاگلوں کی طرح چیخنے لگی۔جب 5 دن مسلسل بخار رہا تو ڈاکٹر کے پاس لے گئی ،معائنہ کرنے کے بعد ریحانہ پر آسمان ٹوٹ پڑا۔
بیٹی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ متعلقہ سکول کا نائب قاصد جنکی عمر 48 سال ہے اور پشاور کے علاقے موسیٰ زئی کا رہائشی ہے نے طالبہ کو چھٹی کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا ۔
ایف آئی آر کرنے کے بعد نائب قاصد کو سکول سے گرفتار کر کے پولیس لے گئی ۔ریحانہ کے مطابق 9 ماہ گزرنے کے بعد بھی اسکی بیٹی اکثر رات کو اٹھ کر چیخیں مارنا شروع کر دیتی ہیں۔وہ انصاف کی منتظر ہیں جبکہ ملزم ابھی تک جیل میں ہے۔
 این جی او ساحل کے رپورٹ کے مطابق 2021 کے دوران روزانہ کم از کم 10 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اغوا کے 1,060 کیسز رپورٹ ہوئے، عصمت دری کے 410 مقدمات درج ہوئے، جنسی زیادتی کے 483 کیسز، گینگ ریپ کے 146 کیسز اور گینگ سوڈومی کے 234 کیسز رپورٹ ہوئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم از کم 22 لڑکوں اور 18 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا جبکہ کم از کم 10 لڑکوں اور تین لڑکیوں کو اجتماعی بدکاری اور عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا۔
اسی طرح محکمہ داخلہ کی دستاویز میں بتایا گیا کہ گزشتہ 3 سال میں 541 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان واقعات میں 13 بچے قتل بھی کیے گئے۔دستاویز کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں 202 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 13 کو سزائیں ہوئیں اور 18 عدالتوں سے بری ہوگئے جبکہ باقی ملزمان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل طارق افغان کے مطابق بہت سے ایسے وجوہات ہیں جنکی وجہ سے ملزم  بری ہو جاتے ہیں۔جن میں سب سے اہم  یہ ہے کہ گواہ جب گواہی دینے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے انکو بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ سائنسی   تفتیش کی کمی ہے کیونکہ وہ آلات موجود نہیں جس سے سائنسی طور پر تفتیش کی جائے جس کی وجہ سے ملزم آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔
محکمہ داخلہ کی دستاویز میں مزید بتایا گیا کہ بچوں کے ساتھ زیادہ واقعات 120 صوبائی دارالحکومت پشاور میں رپورٹ ہوئے۔پولیس ذرائع کے مطابق متعلقہ علاقوں میں سی سی ٹی وی فوٹیجز کو چیک کیا جاتا ہے۔شک کی بنیاد پر گرفتار کیے گئے افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔وغیرہ
 ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر اعزاز جمال نے اس حوالے سے بتایا کہ جو بچے بچپن میں خود جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں وہ بڑے ہو کر انتقام کی صورت میں دوسرے بچوں کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ ہوا ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ بچوں میں جب بھی معمول کے برعکس تبدیلی دیکھیں تو ایسے بچوں کو وقت دیں ان کے روزمرہ معمولات پر نظر رکھیں، زیادہ تبدیلی کی صورت میں بچوں کی کونسلنگ کریں یا کسی بھی ماہر ذہنی امراض سے انکا معائنہ کروائیں۔
 ڈاکٹر نے بتایا کہ 80 فیصد ابیوزر اپنے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں جن میں ماموں، چچا، کزن وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔انہوں نے مزید بتایا کہ جہاں تک جنسی تشدد کرنے والے لوگوں کو ایک بیماری ہوتی ہے، ایسے بیمار کو پیڈو فائل کہتے ہیں، یہ ایسی ذہنی بیماری ہے جس میں مریض ہوش میں نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور اکثر جنسی عمل کے بعد بچہ بچی کو قتل بھی کر دیتے ہیں،اکثر ذاتی دشمنی کی وجہ سے بھی بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، منشیات کا عادی یا جرائم پیشہ افراد بھی بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ایسے لوگ ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں۔
 دوسری جانب سائیکالوجسٹ ڈاکٹر عرشی ارباب بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے کہتی ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جنسی تشدد کرنے والوں کی عمر عموماً 16 سے 24 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ ایسے لوگ کیوں بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اس کی کچھ اہم وجوہات ہیں۔
 ڈاکٹر عرشی ارباب کے مطابق ان واقعات کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیکس ایجوکیشن نہیں ہے، اسے بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے بچوں کو ان کی بلوغت کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ بچوں پر جنسی تشدد کی ایک اور اہم وجہ ہمارے ہاں خاندانوں کا مل جل کر ایک ہی گھر میں رہنا بھی ہے۔
ڈاکٹر عرشی ارباب نے کہا کہ جب والدین بچوں پر توجہ دینا کم کر دیتے ہیں تو وہ غلط کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں اور اکثر چھوٹے بچے اپنے بڑے کزنز کے جنسی ہوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔انہوں نے جنسی عمل کے بعد قتل کے حوالے سے کہا کہ جنسی تشدد کے بعد قتل خوف سے ہوتے ہیں کہ ملزم کی نشاندہی نا ہو۔
بچوں کےجنسی تشدد کے حوالے سے ایڈووکیٹ طارق افغان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ سیکشن 53 کے تحت جس شخص کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے تو جرم ثابت ہونے پر اس کو 14 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہےاور اگر جنسی تشدد کے بعد بچے یا بچی کو قتل کیا جائے تو 302 کے تحت عمر بھر قید کی سزا یا سزائے موت سنائی جاتی ہے اور مجرم کو ضمانت پر رہائی بھی نہیں دی جاتی۔
انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ نے بچوں کے تشدد کے خلاف تمام امور کو بہت ہی اچھے طریقے سے کور کیا ہے اور ملزم کو قانون کے مطابق شزا دی جاتی ہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے قانون بن جانے کے بعد اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بہت ہی زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے بچے پر جنسی تششدد کرنا بچے کا قصور نہیں لیکن پھر بھی لوگ شرم کی وجہ سے مقدمہ درج نہیں کرتے ۔
یاد رہے کہ پشاور میں بچیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے والا ملزم گرفتار کر لیا گیا ہے، آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے میڈیا پریس کانفرنس کو بتایا کہ ملزم سہیل کا تعلق پشاور کےعلاقے سفید ڈھیری سے ہے اور عمر 25 سے 30 سال کے درمیان ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق ملزم نےبتایا کہ وہ بچیوں کو آیس کریم،اور چیونگم کا لالچ دیتا تھا۔جس طرح اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ڈاکٹر اعزاز جمال کے مطابق زیادہ تر ابیوزر خود زیادتی کا شکار ہوتے ہیں تواسی طرح ملزم سہیل نے اعتراف کیا کہ اس کو 10 سال کی عمر میں ایک وکیل نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے تینوں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا اعتراف کر لیا،ملزم نے 3 جولائی کو ریلوے کالونی میں دس سالہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعدقتل کر دیا تھا، 10 جولائی کو گلبرگ میں دوسری بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا جبکہ 17 جولائی کو ملزم نے کالی باڑی میں تیسری بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top