سحرش محمود
میڈیا ہاؤس جوائن کئے پہلا ہفتہ تھا میری نوکری کی لیکن ایک دن آفس میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک خاتون ایک ہاتھ میں جوتے ایک میں کپڑے اور بیگ اٹھائے تیزی سے بھاگتی ہوئی میک اپ روم کی طرف جا رہی ہے۔ تجسس پیدا ہو ایک دو ساتھیوں سے پوچھا تو وہ بولی یہ میک اپ آرٹسٹ ہیں جو ایک اینکر صاحبہ کی چیزیں ان کی گاڑی سے لائی ہیں کچھ دیر بعد دوبارہ انہی کو اینکر کے جوتے اٹھا کے میک اپ روم سے اسٹوڈیو تک جاتے دیکھا یہ روز کا معمول تھا کام پسند نہیں آیا تو چیخنے چلانے کی آوازیں باہر تک آئیں گے جہاں غلطی نہیں بھی ہے،کسی پر بس نہیں چل رہا میک اپ آرٹسٹ کو ڈانٹ دیا میک اپ پسند نہیں آیا خود لیٹ پہنچی تو ڈانٹ دیا تمھیں کام کرنا نہیں آتا۔
تیزی سے ہاتھ چلاؤ تم سست ہو،کسی اور کا میک اپ کیسے کر دیا اسے تو میرا میک اپ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔اینکرز کی آپس کی جیلسی میں بھی یہی پستے ہیں تم نے اس کا میک اپ ذیادہ اچھا کیا،۔فیلڈ میں جانا ہے میک اپ آرٹسٹ کو بھی لے کرچلو میں اکیلی کیا کروں گی میرا بیگ کون اٹھائے گا،صبح دس بجے افس بلا لیا شو چاہے رات میں ہو کچھ اداروں میں خواتین میک اپ آرٹسٹ کی نائیٹ ڈیوٹی لگانا بھی معمول رہا ہم نے میک اپ آرٹسٹ کو اینکر کے بچے سنبھالتے بھی دیکھا ہے اس کے باوجود تنخواہ نہ ہونے کے برابر ہے جس میں پک اینڈ ڈراپ جیسی بنیادی سہولت بھی اکثر شامل نہیں ہوتی۔
میک اپ آرٹسٹ زیادہ تر یا تو ہماری مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں یا ٹرانس ہوتے ہیں دونوں کو الگ طرح کی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ٹرانس میک اپ آرٹسٹ سے بات ہوئی تو انہوں نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر اپنے بہت سے مسائل بھی بتائے اور کچھ قصے بھی سنائے کہ لوگ کیسے تنگ کرتے ہیں کیسے بہت سے مشہور لوگوں نے صرف اس وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ٹرانس ہیں، کس ذہنی اذیت سے گزر کر وہ کام کرتے ہیں ہر نظر کھا جانے والی ہر بات دل دکھانے والی لوگوں کی نظروں میں ان کے لئے تضخیک کا عنصرنمایاں ہوتا ہے،
اُن کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے 2006 میں کام کا آغاز کیا تووہ ایک مشہور فائیو اسٹار ہوٹل سے کام چھوڑ کر میڈیا میں آئے تھے وہاں انہیں جن مسائل کا سامنا تھا تقریبا وہی مسائل یہاں بھی موجود تھے، اس دور میں ٹرانس کے بارے میں آگاہی کی کمی تھی ایک ٹرانس کے ساتھ کام کرنے کو لوگ ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے تھے خواتین میک اپ کروانے سے گھبراتی تھیں باقی دوست بات کرنے سے، جان کر نائیٹ شفٹ میں ڈیوٹی لگانا زیادہ لوگوں کی یہی کوشش تھی وہ کام چھوڑ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں برے لوگ ہوتے ہیں وہاں کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں دنیا اسی توازن سے چل رہی ہے انہی اچھے لوگوں کی بدولت آج انہیں کام کرتے اتنا عرصہ ہوگیا مگر فیلڈ میں نئے آنے والے بہت سے ٹرانس ان مسائل لوگوں کی نظروں اور باتوں کا سامنا نہیں کر پاتے اوردل برداشتہ ہوکر نوکری چھوڑ دیتے ہیں جو کام کر رہے ہیں ان میں سے اکثر اپنی اصلیت چھپا کر مردوں کے حلیے میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
اقلیتی برادری سے کام کی غرض سے آنے والی خواتین کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے انہیں اور طرح کے مسائل کا سامنا ہے کم تنخواہ ذہنی دباؤ، ذیادہ خواتین شادی شدہ ہیں جو گھریلو مجبوریوں ،معاشی تنگی،بچوں کی پرورش کے لئے کام کرتی ہیں گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ کام کا بوجھ اینکرز کے ناروا رویے کے ساتھ انہیں اپنے ساتھیوں کی جانب سے بھی کبھی کبھی ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے تہواروں پر چھٹیاں نہیں دی جاتی کہ آپ نے کیا کرنا ہے آپ ڈیوٹی کریں۔
جانے انجانے میں لوگ ان کا دل دکھانے کا سبب بنتے ہیں جب وہ کچھ کھانے کو لائیں اور آپ کے ساتھی یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ ہم غیر مسلموں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے،مجھ یاد ہے ہماری ایک مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ساتھی کھانا بنا کر لائیں کھانا کافی لذید تھا سب نے کھایا ،ایک دوست نئے آئے تھے کھانا تو انہوں نے کھا لیا مگر کچھ دیر بعد جب انہیں پتہ چلا کہ وہ خاتون مسیحی برادری سے ہیں تو سارا دن منہ بنا کے بیھٹے رہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہے آپ کو لوگوں کو بتانا چاہئے تھا میں کھانا نہہں کھاتا تھا۔
ہمارے یہاں میک اپ آرٹسٹ کو اس طرح سے عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہیں،طبقاتی فرق ہمارے معاشرے میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ ہم کبھی کبھی انجانے میں اور کبھی جان بوجھ کر بھی لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا برتاؤ کرتے ہیں کبھی رنگ، نسل، زبان، مذہب اور کبھی کسے کے پیشے کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنانا ہمارا وطیریہ بن چکا ہے۔
ہمیں اپنے رویوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے,، دنیا میں وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو معاشرے میں موجود افرادی قوت اور انکے پیشے کو اہم جانتی ہیں اور عزت دی جاتی ہے نہ کہ رنگ ،نسل اور طبقاتی سوچ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر کے محرومیوں کے بیج بوئے جائیں کیونکہ اگر ابتدا کھوکھلی ہوگی تو بقا کی ضمانت بھی مشکوک ہی ٹھہرے گی۔