قومی یوم اقلیت اور اثباتی اقدامات

FB_IMG_1633770540264.jpg
تحریر : آصف منور
ملک پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے75 سال مکمل ہونے کو ہیں اور آج بھی پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد نہیں بلکہ جنگ کرنا پڑتی ہے ۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ریاست پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق کئی معاہدوں کی توثیق کی ہوئی ہے اور انسانی حقوق کےمتعلق قوانین اور پالیسیاں بھی بنا رکھیں ہیں لیکن ان قوانین پر عملدرآمد ایک حقیقی مسلہ ہے۔ پاکستانی مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکارہیں انکے حقوق کےلئے بنائے گئے ادارے بھی برائے نام دکھائی دیتے ہیں ۔
سرکاری طور پر یوم اقلیت منانے کا مقصد تو یہ ہی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تمام تر حقوق حاصل ہیں اور انکو ہر طرح کی آزادی میسر ہےحکومت نے اقلیتوں کے لئے کئی اثباتی اقدامات اٹھائے ہیں لیکن انکو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سارے اقدامات قانون سازی کی بجائے نوٹیفکیشن کے ذریعے متعارف کروائے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان پر عملدآمد بھی مشکل ہے اور ان مثبت اقدامات کی مانیٹرنگ کرنا بھی مشکل ہے اس طرح سے اس کے ثمرات نہیں پہنچ پاتے کیونکہ کوئی ذمہ دار ادارہ نہیں ہوتا کہ ان اقدامات پر عملدآمد کروائے۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اقلیتوں کے حقوق کےلئے قانون سازی کے ذریعے ادارے بنائے۔پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ اور انکے مسائل پر بہت سارے ادارے اپنی تحقیقیاتی رپورٹس شائع کر رہے ہیں اگر ان رپورٹس پر سرکاری طور پر کام کیا جائے تو حقوق کی فراہمی میں بہتری آسکتی ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کی مانیٹرنگ اور مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لئے ملکی سطح پر قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت اس کی واضع مثال ہے ۔ اس بنائے گئے کمیشن میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اس کمیشن کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے نہیں بنایا گیا دوسرا یہ کہ کمیشن ان کمشنز مثلاً کمیشن برائے انسانی حقوق،حقوق نسواں،حقوق اطفال وغیرہ کے مقابلے میں کمزور کمیشن ہے اور اس کمیشن کو وزارت برائے مذہبی امور و بین العقائد ہم آہنگی کے ماتحت رکھا گیا ہے جبکہ یہ کمیشن ایک آزاد اور خودمختارکمیشن نہیں ہے۔اس کمیشن کا کوئی واضع مینڈیٹ نہیں ہے اس کمیشن کے پاس کوئی عملہ یا دفتر نہیں ہے اور یہ کمیشن اقلیتوں کے کسی سانحہ یا مسلہ پر متحرک دکھائی نہیں دیتا جبکہ اس کمیشن کو نچلی سطح تک فعال ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے نظام اور محروم طبقات کے حقوق پر توجہ مرکوز کرنے کےلئے سرکاری سرپرستی اور امداد سے خصوصی ادارے کمیشن وغیرہ بنائے جاتے ہیں جن کے اختیارات اور دائرہ کار میں اقلیتوں کو درپیش مسائل پر تحقیق کرنا ،اقلیتوں کے حقوق اوراقدامات پر عملدآمد کی نگرانی ،اقلیتوں کے حقوق اور فروغ کےلئے اقدامات اٹھانا،اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات اور موصول ہونے والی شکایات کا ازالہ،قوانین و پالیسیوں کا جائزہ اور اصلاحات کےلئے سفارشات مرتب اور پیش کرناشامل ہونی چاہیں۔حال ہی میں انسانی حقوق کےلئے کوشاں ادارہ برائے سماجی انصاف کی تحقیقاتی رپورٹس میں اقلیتوں کو درپیش مسائل پر بے شمار رپورٹس جاری کی گئیں ہیں۔
 جبری تبدیلی مذہب جیسے اہم مسلے پر قانون سازی نہ ہونا حیرانگی کی بات ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں جبری تبدیلی مذہبی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔صرف اس سال میں 78کیس رپورٹ ہوئے،اس کے برعکس 2019کے دوران 50،اور 2020میں15کیس رپورٹ ہوئےتھے۔ادارہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق جبری تبدیلیوں کے متاثرین میں 39ہندو،38میسحی اورایک سکھ لڑکیاں،خواتین شامل تھیں ان میں 76فیصد بچیاں نابالغ تھیں 33فیصد بچیاں14سال سے کم عمر تھیں جوکہ بچوں کے حقوق کے کمیشن کےلئے بھی سوالیہ نشان ہے۔سب سے زیادہ کیس سندھ میں رپورٹ ہوئے اس کے بعد پنجاب اور کے پی میں رپورٹ ہوئے۔
دو حکومتی اداروں وزارت برائے مذہبی اموراور بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلامی نظریاتی کونسل نے پارلیمانی کمیٹی میں مسودہ قانون پر بحث کی مخالفت کی۔ اگر اس مسلہ پر جامع قانون متعارف کروایا جائے اور ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے نیز حکومت کو چاہیے کہ اس اہم مسلہ پر نہ صرف قانونی بلکہ انتظامی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں کمی واقع ہواور ذمہ دار افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔پاکستانی اقلیتوں کو ملازمتوں میں ملازمت کوٹہ پر بھی تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں ملازمت کوٹہ پر عملدآمد نہیں ہورہا،درجہ چہارم کی آسامیاں اقلیتوں کو دے دی جاتیں ہے جبکہ ملازمت کوٹہ کی سیٹیں بھی اکثریتی کمیونٹی کو دے دی جاتی ہیں۔
افراد شماری میں اقلیتوں کی بروقت اور درست تعداد بھی پبلک نہ کرنا ایک سوالیہ نشان ہےجبکہ اضلاع کی سطح پر بنائی گئی سرکاری کمیٹیز میں بھی نمائندگی صفر کے برابر ہے۔ حکومت کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں کی تقسیم کا بھی کوئی طریقہ کار واضع نہیں کیا گیا اور نہ ہی میرٹ کی بنیاد پر انکو کوئی فنڈز دیئے جاتے ہیں اور بہت ساری بیشتر سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں کئی وعدے کرتی ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان وعدوں کو بھول جاتی ہیں ان پر عملدآمد نہیں کرتیں بہتر یہ ہی ہے کہ وعدوں کو وفا کیا جائے اور اقلیتوں کے مسائل ملازمت کوٹہ،تعلیمی امتیازی مواد،جبری تبدیلی مذہب کے قانون کا نفاذ جیسے دیرینہ مطالبات پر اقدامات اٹھائے جائیں۔
 سال 2009 میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گیارہ اگست کو قومی یوم اقلیت کے طور پر منانے کا اعلان کیا اب یہ دن اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ہر سال عوامی اور سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے اور اس دن کو منانے کی وجہ یہ ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کا بحثیت گورنر جنرل 11اگست 1947کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کو مساوی شہری حقوق،رواداری،مذہبی آزادی اور جہموریت کے احساس کا منشور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس تقریر میں کہا گیا تھا کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ نہیں کیا جائے گا لیکن آج 75سال گزرنے کے باوجود بھی اگر یہ مسائل حل نہیں ہوتے تو حقیقی معنوں میں یوم اقلیت منانا بے فائدہ اور بے سود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top