تحریر : دھرمیندر کمار بالاچ
ایڈووکیٹ سپنا سیوانی کا تعلق سکھر کی ایک ہندو فیملی سے ہے اور پیشہ کے لحاظ سے ایک وکیل ہے اور اس وقت سندھ بار کونسل میں ایک وکیل کی حیثیت سے کام کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے میرا وکالت میں ہونا میرے والد صاحب کی خواہش تھی جو میرا جذبہ بھی بن گیا اور مجھے ہمیشہ میرے والد سے سپورٹ ملتی رہی اور جس کی بدولت 2012 میں گریجویشن کراچی سے کی اور2015 میں ایل ایل بی ہمدرد اسکول آف لاء سے اور 2021میں ایل ایل ایم شہید ذوالفقار علی بھٹو سے یونیورسٹی، کراچی سے کیا۔
میں گزشتہ 6 سال سے پریکٹس کر رہی ہوں اس وقت مختلف کمپنیوں اور فرمز میں لیگل ایسوسی ایٹ کی ڈیوٹی دے رہی ہوں اس مرتبہ کراچی بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں ایک ہندو وکیل حیثیت سے حصہ لے رہی ہوں۔
میری فیملی کا پس منظر سیاسی ہے میرے والد پتامبر سہوانی پیپلز پارٹی میں ایم پی اے رہ چکے ہیں اور میرے والد کی جدو جہد اور لگن کی وجہ سے آج میں اس مقام پر ہوں کے میں نے اپنے والد کا خواب بھی پورا کیا اور آج کراچی بار کے 2022 کے الیکشن میں بھی حصہ لے رہی ہوں۔
اس شعبے میں کام کے دوران ہمیں کئی طرح کی دھمکیاں بھی ملی ہیں، ہمیں زبردستی پاکستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا لیکن ہم نے کبھی بھی ہار نہیں مانی اس لیے کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اور اس میں رہنا کا حق ہر پاکستانی کو حاصل ہے۔اس لیے جب ہم عملی زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اسی طرح میرے والد نے اقلیتوں کے لیے آواز بلند کی ہے انہوں نے نہ صرف اقلیت کے لیے کام کیا بلکہ اکثریت کے لیے بھی کام کیا مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر ہوتا ہے کہ ہمارا آبائی شہر ضلع سکھر کے نواحی علاقے باگڑ جی میں جہاں پر میرے والد نے امام بارگاہ اور مسجد بھی بنوائی ہیں۔ جس سے معاشرے مزہبی ہم آہنگی کا فروغ ملتا اور تفرقہ بازی ختم ہوتی کیونکہ ایک انسان کا کام دوسروں کے کام آنا ہے۔ انہوں کبھی بھی کسی سے فرق نہیں کیا اور ہم برابری پر یقین رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میرے والد نے لوگوں کے بھلائی کے لیے کام کیا ہے میں بھی سماجی انصاف کے لیے کام کررہی ہوں اور کرتی رہوں گی۔
پاکستان میں جہاں خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان مسائل اور مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کا تعلق کسی اقلیت سے ہو۔ اور جب آپ گھریلو زندگی سے نکل کر کسی پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو سپنا سیوانی کی طرح بہت سی کہانی سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سپنا سیوانی نے کراچی بار ایسوسی ایشن سے مینیجنٹ کمیٹی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے لیے ان کو اپنے خاندان سے بھی کئی طرح کی باتیں سننا پڑیں لیکن گھر والوں نے سپنا سیوانی کی حوصلہ افزائی کی ہے اس کام میں سپنا کے شوہر اویناش اڈوانی نے ان کی مکمل مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اویناش جی سندھ کے پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر ایک سماجی ادارے کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ خواتین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور خواتین کے لیے نوکری کرنا بہت مشکل ہے ، ہمارا معاشرہ یا گھر والے بھی اس بات کی حمایت نہیں کرتے کہ خواتین باہر جاکر کوئی کام کرے ۔اگر کوئی لڑکی نوکری کے لیے باہر جاتی ہے تو یہ خاندان کے لیے اور لڑکی کے لیے بھی بڑا مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ ہم ایک اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جہاں پر آئے روز کسی نہ کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن لوگ دوسروں کے اس طرح کے اقدام کا احترام نہیں کرتے بلکہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی ذہانیت بہت مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں والدین کی اکثریت وہ اپنی لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجتے ۔ اس لیے یہ بھی دیکھنا ہوگا مسائل تو انسان کی زندگی کا حصہ ہے اگر آج نہیں تو کل ہمیں اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینی ہوگی ان کے جزبات و احساسات کا احترام کرنا ہوگا تاکہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں اور ایک ذمےدار شہری بن سکے اور آنے والی نسلوں کو مایوسی کی جگہ ایک امید کی کرن دے سکے۔
سپنا کا کہنا ہے میرے لیے یہ سب سے مشکل فیصلہ تھا کہ میں کراچی بار ایسوسی ایشن کا الیکشن لڑ کر ممبر مینجمنٹ کمیٹی کی رکن بنوں۔ کیوں کہ کسی بھی انسان کے لیے کوئی کام اکیلے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کسی شادی شدہ عورت کا شوہر اس کام میں اس کا ساتھ نہیں دیتا لیکن اویناش پہلے دن سے میرے ساتھ ہیں جو میرے لے ایک فخر کی بات ہے۔ عام طور پر عورت کے لئے یہ سب بہت مشکل ہوتا ہے گھر والوں کے تعاون کے بغیر کوئی کام کرے۔
سپنا جی کا کہنا ہے کہ اگر میں ممبر منتخب ہوئی تو میں اقلیت کی خواتین کی تعمیر و تربیت میں کردار ادا کر سکوں گی بلکہ ان کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کروں اپنا فرض ادا کروں گی اور جن کو میری مدد کی ضرورت ہے میں پہلے بھی ان کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہوں اور کرتی رہوں گی۔ ان کو یہ بھی بتاؤں گی کہ ایک عورت گھر بھی چلا سکھتی ہے، خاندان بھی اور آزادی کی لڑائی بھی لڑ سکتی ہے. میں الیکشن میں جیتو یا ہاروں یہ اہم نہیں!میرے لیے یہ اہم ہے کے میں اقلیت میں ہو کر بھی لڑنا چاہتی ہوں اپنے حقوق اور آزادی کے لیے جس سے یہ پیغام جائے گا کہ اگر انسان میں حوصلہ ہو تو وہ کیا کچھ نہیں کرسکتا.پھر چاہیے اس کا تعلق اقلیت سے ہویا اکثریت سے ۔
ہمارے کلچر میں بہت سی رکاوٹیں ہیں مجھے ان کو توڑنا ہے۔ کب تک اقلیت اور اکثریت کی کشمکش میں خواتین گھروں میں قید ہوکر رہی گی اور کب اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے سے کتراتی رہیں گیں اور خاموش تماشا بنی رہے گیں۔ میں بھی اس اعظم کے ساتھ یہ الیکشن لڑوں کہ اگر بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم بن سکتی ہے، کرشنا کوہلی سینیٹر بن سکتی ہے، اگر ایسٹونیا کے وزیراعظم کاجا کالس بن سکتی ہے، اگر مالدووا کی صدر مایا سانڈو بن سکتی ہے، کوسوو کے قائم مقام صدر وجوسا عثمانی بن سکتی ہیں اور اگر گبون کے وزیراعظم روزے بن سکتی ہیں تو پھر میں کیوں نہیں؟
اگر عورت حکومتی امور میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے تو وہ ایک مینجمنٹ کمیٹی کا حصہ بن کر بھی اپنے فرائض خوش اسلوبی کے ساتھ سر انجام کیوں نہیں دے سکتی ہے. میری لڑائی آزادی کے لیے ہے اور قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور ایک خاتون اقلیت میں رہے کر تبدیلی لا سکتی ہے. مجھے سب کے تعاون کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنا کردار ادا کر سکوں.