بشریٰ اقبال حسیں: سینئر صحافی و بانی "محفوظ بچپن”
(پچھلی قسط میں ہم نے گھر اور والدین کے حوالے سے بات کی تھی کہ کس طرح بچوں کی جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور جسنی صحت کا تحفظ ممکن بیایا جاسکتا ہے۔ اس قسط میں ہم بچوں کے مستقبل کی ضامن، تعلیم اور تربیت میں ایسی درسگاہوں کے ماحول کو محفوظ بنانے کے حوالے سے بات کریں گے۔)
محفوظ بچپن:قست نمبر 1:محفوظ گھر
گھروں میں بچوں کا واسطہ محدود ہوتا ہے، وہ خاندان سے واقفیت حاصل کرتے ہیں یا پھر خاندان کے توسط سے کچھ رشتوں کی پہچان کر پاتے ہیں۔ ان کا پہلا باضابطہ سماجی ربط اسکول کے ذریعے سے بنتا ہے۔ جہاں انہیں ایک فرد کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ اور وہ بھی اپنی انفرادی حیثیت میں دوسروں سے تعلق قائم کرتے ہیں۔ عمومی طور پر بچے گھروں میں ناز نخرے سے پالے جاتے ہیں یا انہیں گھر مٰن خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ جیسے کوئی پہلوٹھی کا بچہ، اکلوتا بچہ، اکلوتا بھائی یا بہن، یا سب چھوٹا بچہ وغیرہ۔ مگر اسکول آنے کے بعد وہ دیگر بچوں میں اپنی الگ شناخت بنانے کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔اس مرحلے میں اسکول کے ماحول، اساتذہ، جماعت کے دیگر ساتھیوں، اسکول میں موجود بڑے بچوں اور والدین کا کردار اہم ہوتا ہے۔
درس گاہ کا انتخاب
سب سے پہلے ایک بار پھر والدین کی ہی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچے کے لئے کس چرح کی درس گاہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اکثر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مہنگے، ماڈرن، جدید اور اچھی شہرت والے اسکول کا انتخاب کریں۔ کبھی والدین دوسرے ملنے والوں یا دوستوں کی دیکھا دیکھی بھی اسکول کو اپنے حساب سے جانچے بغیر چن لیتے ہیں۔ چند والدین اسکول کے بجائے مذہبی دسر گاہوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
آپ اپنے بچے کو کیا سیکھانا چاہتے ہیں؟
بچے کو درس گاہ میں بھیجنے سے پہلے یہ سوال خود سے ضرور پوچھیں آپ اپنے بچے کو کیا سکھانا چاہتے ہیں؟ صرف جدید علوم، انگریزی، جسمانی مضبوطی، لکھنا پڑھنا، کردار سازی، سماجی میل جول یا زندگی گذارنے کے لئے ضروری مہارتیں۔ پھر جو اپنے جواب کے حساب سے درس گاہ کی پرکھ کرتے ہوئے بچے کا داخلہ کروائیں۔
اسکول آپ کے گھر کے قریب ہونا چاہیئے
کوشش کریں اسکول آپ کے گھر کے قریب ہو تا کہ بچے کی توانائیاں لمبے سفر میں ضائع نا ہوں، اور اسے آرام کا مناسب وقت مل سکے۔ اس طرح ماں یا باپ یا بچے کا کوئی نگران بوقت ضرورت جلد از جلد اکول تک پہنچ سکتا ہے۔ والدین کو ٹرانسپورٹ پر زیادہ پیسے خرچ نہیں کرنے پڑتے۔ اور انہیں اسکول میں آنے والے دیگر بچوں کی کمیونٹی کا علم بھی رہتا ہے۔ اپنی معاشی حالت کے مطابق ادارے کا انتخاب والدین کے لئے بھی آسانی کا باعث بنتا ہے اور بچوں کے لئے دوسرے بچوں سے گھلنے ملنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔
بچوں کے نشوونما کے مناسب اقدامات
اسکول یا درس گاہ کی عمارت میں بچوں کی نشوونما کے مناسب اقدامات ضرور ہونے چاہیے ہیں، جیسے کھلے ہوادار کمرے، ٹوائلٹ کی سہولت، روشنی، پانی اور صفائی کا انتظام، کھیل کا میدان، دو منزلہ عمارت کی صورت میں سیڑھیاں جس کے ساتھ ریلنگ لگی ہو۔ بیرونی دیوار کی مناسب اونچائی،گیٹ کیپر اور اب کیونکہ جدید دور ہے تو نگران کیمرے بھی گیٹ پر لگائے جا سکتے ہیں۔کلاس رومز میں فریچر بے شک بہت مہنگا نا ہو مگر ضرر رساں نا ہو۔
اساتذہ تربیت یافتہ ہو
بچوں کا والدین کے بعد سب سے اہم تعلق ان کی پہلی استانی یا استاد سے ہی بنتا ہے۔ استاد کی ذمہداری سب سے اہم ہے۔ اس لئے اساتذہ کا تربیت یافتہ ہونا ہاہئے۔ ان کے لئے بچوں کی نفسیات کا مطالعہ لازمی ہے۔ وہ جماعت میں بچوں کی خوبیوں کو اجاگر کرنے اور کمی کوہتاہی کو طاقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ نا کہ بچوں کو مورد الزام ٹھہرا کی اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالیں۔ بچوں کی تضحیک سے باز رہیں۔
فیورازم
اکثرچھوٹے بچے ماں کے بعد استانی سے متاثر ہوتے ہیں اور توجہ چاہتے ہیں۔ ایسے میں اگر استاد فیورازم کرے یعنی ایک ایک بچے کو اس کی ذہانت، بھول پب، خوبصورتی یا کسی وجہ سے زیادہ توجہ دینے لگے تو دوسے بچے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور ان میں غصہ بھر جاتا ہے، یا وہ پڑھائی کی طرف دھیان نہیں دے سکتے۔ بچے کیونکہ جذبات کو سمجھ نہیں سکتے نا ہی اظہار کر سکتے ہیں اس لئے ان کے انداز میں بےچینی، شدت پسندی، بے دھیانی، سستی وغیرہ محسوس کی جاسکتی ہے۔
سزادینا مقصود ہو تو تعمیری طریقہ اختیار کریں
مار پیٹ، بے جا ڈانٹ ڈپٹ تو مکمل ممنوع ہے۔ اگر سزا دینا ہی مقصود ہو تو کئی تعمیری طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے جس سے بچہ کچھ سیکھے اور اسے احساس بھی ہوکی آنندہ اسے کس طرح کا غلطی سے باز رہنا ہے۔ جیسے دو بچوں کی لڑائی کی صورت میں دونوں کو دوستی کے موضوع پرمختصر تقریر تیار کرنے کا کہا جا سکتا ہے۔
درس گاہوں میں بچے جنسی طور پر محفوظ ہوں
درس گاہوں میں بچے جنسی طور پر محفوظ ہوں، یہ یقینی بنانے کے لئے والدین ، اساتذہ اور اسکول کی انتظامیہ کا مسلسل رابطہ ہونا ضروری ہے۔ بچوں تک جس بھی شخص کی رسائی ہو اس کا مکمل ریکارڈ اسکول کے پاس ہونا چھاہئے، اساتذہ، نائب قاصد، چوکیدار، سائینس لیب میں مدد گار، کلرک، ڈرائیور وغیرہ۔ ان کا سابقہ اداروں میں کیسا کردار رہا ہے، ان کی رہائیش وغیرہ کی مکمل معلومات اور ان کی بچوں سے صرف ضرورت کے مطابق رسائی۔
اسکول میں بچوں کی جنسی صحت، اپنی حفاظت، مناسب یا غیر مناسب چھونے میں فرق کے بارے میں بتانا آسان بھی ہے اور اس سے ان کے ذہنوں میں جنس کے بارے میں یہ تاثر بھی ختم ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی خفیہ موضوع ہے۔ اسطرح بچے اس پر کھل کر اپنے خدشات اور شکایات بیان کر سکتے ہیں۔ اور انہیں استاد یا اچھے اسکولوں میں ماہر نفسیات کی سہولت بھی فراہم ہو جاتی ہے، وہ بلا جھجھک اپنے سوالات ان کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ اسکول اور والدین کا باہمی رابطہ ان توجہ طلب مسائل کو باآسانی حل کرنے میں مدد گار ہوگا۔
گاڑی کے ڈرائیور،گاڑی میں سفر کرنے والے بچوں کی جانچ
اکثر بچے کسی اسکول وین، بس، رکشہ، ٹانگہ وغیرہ میں اسکول آتے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں گاڑی کے ڈرائیور، گاڑی میں سفر کرنے والے بچوں کے علاوہ افراد کے بارے میں ضرور خبر رکھیں۔جن بچوں کو صبح سب سے پہلے گاڑی پک کرتی ہے یا واپسی میں سب سے آخر میں اتارتی ہے۔ ان سے روزانہ سفرکے بارے میں دریافت کیا جائے، تا کہ کسی ناخوشگوار واقعے کی فوری نشان دہی ہو سکے۔
جن سواریوں پر بچوں کو پک انیڈ ڈراپ کیا جا رہا ہو، ان کی حالت بھی اچھی ہونی چاہیئے۔ لاسنس یافتہ ڈرائیور ہوں۔ اکثر اسکول وینز میں سی این جی سیلنڈر لگے ہوتے ہیں۔ ان کی معیاد پر سمجھوتا نا کریں۔ بڑے حادثات کو چھوٹی احتیاط اور زمہ داری سے روکا جاسکتا ہے۔
معاندانہ رویہ
بچے ایک دوسرے کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔ بولینگ کرنا یعنی دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بنانا، ان کی جسمانی خدوخال، رنگ، قد، بالوں وغیرہ کا مذاق اڑانا۔ یا کسی بچے کی مالی حیثیت، قومیت یا کسی بھی وجہ سے نشانے پررکھنا دیا بھر کی درس گاہوں میں ایک بڑے مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسکول اس بارے میں آگاہی حاصل کریں، اور نشاندہی ہونے پر فوری تدارک کیا جائے۔ ورنہ اس طرح کے مسائل کے بعد بچوں کی شخصیت بری طرح بکھر جاتی ہے اور ان کے لئے تاعمر خود اعتماد ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور جو بچے ایسے نامناسب روئے سے دوسرے بچوں کا تکلیف دیتے ہیں ان میں ہمدردی، خلوص اور دوستی بنانے کو صلاحیت پروان نہیں چڑھتی۔
ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام
اسکولوں میں پڑھائی کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام ضروری ہے، اس طرح بچوں میں مثبت سوچ پروان پاتی ہے اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار آتا ہے۔ خود شناسی کی منزل کی جانب یہ بچوں کا پہلا قدم ہوتا ہے۔
بچے روبوٹ نہیں ہوتے
بچے روبوٹ نہیں ہوتے، ان کی شخصیات، صلاحتیں، روجھان ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں، کچھ بچے اگر حساب میں اچھے ہیں، تو کوئی اردو میں تیز ہو سکتے ہیں۔ کسی کو ٹیبل ٹینس پسند ہے تو کسی کو گانا گانے کا شوق ہو سکتا ہے۔ کچھ بچے سست روی سے پڑھائی کرتے ہیں ائر کچھ قدرتی طور پر تیز رو اور ہوشیارہو سکتے ہیں۔ درس گاہیں ان سب بچوں کو علم و شعور دینے کی پابند ہوتی ہیں۔ اس لئے ان میں امتیاز کرنے کے بجائے انہیں زندگی میں توازن قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ترتیت دینا ضروری ہے۔
درس گاہوں کے ماحول انسان دوست بنائیں
محفوظ اسکول کا یہ خیال ایک مثالی صورت حال پر مبنی ہے۔ اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ مگر اس دائرہ میں رہتے ہوئے درس گاہوں کے ماحول کو انسان دوست بنایا جا سکتا ہے جہاں بچوں کے تحفظ کو یقینی بنیا جا سکے۔ درس گاہ چاہے، نجی اسکول ہوں، سرکاری اسکول ہوں، مدرسے ہوں، مسجد ہو، ٹیوشن اکیڈمی ہو سب پر یہ بنیادی اصول لاگو آتے ہیں.(بشکریہ آئی بی سی اردو)