اسلام گل آفریدی
پاکستان میں بچوں پر تشدد اور اُن کے حقوق کے پامالی کے حوالے سے واقعات میں ماضی کے مقابلے میں یا تو اضافہ ہوا اور یا اب رپورٹ ہونا شروع ہوگیا ہے تاہم اس حوالے سے اب ضرور یہ سوالات اُٹھنا شروع ہوئے کہ کیسے بچوں کو محفوظ بنایا جائے اور کس قسم کے قوانین لائی جائیں جس سے اُن کو تحفظ مل سکے۔یہ سوالات میڈیا اور عام لوگوں کے ذہنوں میں صرف اُس وقت زیر گردیش رہتے ہیں جب تک کوئی دوسرا واقعہ سامنے نہیں آتا لیکن صحافی اور ماہر نفسیات بُشریٰ اقبال حسین نے 2018 میں پشاور سے”محفوظ بچپن ” کے نام سے ایک ایسا مہم شروع کیا جن میں بچوں کو درپیش مسائل کے حل اور آگاہی کے حوالے سے موضوعات پر بات ہوتی ہے۔
بُشریٰ اقبال حسین:2018میں زینب کے واقعے کے بعد بچوں پر تشدد کے حوالے سے واقعات میں اضافہ ہوا اور عموماً زیادتی کے شکار بچے یا بچیوں کے عمریں سات سے نو سال اور زیادتی کرنے والے کی عمریں 14 سے 21 سال تک تھے۔ اسی وجہ سے میرے ذہن میں بحیثیت ماہر نفسیات یہ سوالات اُٹھنے لگے کہ دونوں طرف بچے ہیں اور ضرور اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاہم پاکستان میں بچوں کے حوالے جب آپ بات کرتے ہیں تو ہر لحاظ سے آپ کو نہ ہونے کے برابر معلومات اور تحقیق آپ کو ملے گی تاہم اکثریت درمیانے یا مڈل کلاس کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بچے زیادتی کے شکار ہوتے ہیں۔
پانچ سے سال تک کے عمر کے بچے گھر والوں کے طرف سے عزت اور بے عزتی کو محسوس کرتے ہیں اور اس وجہ سے وہ والدین کے روئیے پر ردعمل کا اظہارکرتے ہیں۔ بچہ یہی محسوس کرنا شروع کردیتاہے کہ گھر میں اُن کے ساتھ والدین یا بڑے بہن بھائیوں کا رویہ دوستانہ نہیں اور وہ اکیلاپن کا شکار ہوکر یا تو گھر سے بھاگنے کی کوشش کرتااور تخریبی ذہن کے قریبی رشتہ دارکے جھانسے میں آکر مسائل کے شکار ہوجاتے ہیں۔
بُشریٰ اقبال حسین: والد محنت مزدوری میں سارا دن گھر سے باہر ہوتا ہے اور والدہ گھر کے کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے بچے کے گھومنے سے بے خبر رہتی ہے۔اس صورتحال کو دیکھ اکثرکیسز میں قریبی رشتہ دار اس بچے کے نفسیات کو جانچ کریہ اندازہ لگالیتے ہیں کہ ان کو گھر میں توجہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ گھر سے باہر کے بندے کو ہمدرد سمجھ کر اُس پر اعتبار کرلیتا ہے اور اسطرح وہ جنسی تشدد کا شکار ہوجاتاہے۔بچوں کے حوالے ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بشرہ اقبال حسین نے "محفوظ بچپن” مہم میں تین بنیادی چیزوں کو متعارف کروایا جن میں محفوظ گھر، محفوظ سکول یا مدرسہ اور محفوظ کھیل کے میدان۔
بُشریٰ اقبال حسین: محفوظ گھر کی اگر ہم بات کرتے ہیں تو اس میں کافی چیزیں آجاتی ہیں لیکن ہم نے کبھی اس بات پر توجہ ہی نہیں دی،مثال کے طور پرگھر میں بچہ کیسے بڑوں کے جنسی اورجسمانی تشدد سے کیسے محفوظ کیاجاسکتاہے۔بچہ پانی میں ڈوب گیا، کرنٹ لگنے اور چھت گرنے اور یا تیز دار آلات سے اپنے آپ کو زخمی کرنے کے واقعات عام ہوتے رہتے جس کی بنیادی وجہ ہمارے گھروں کی تعمیر کو بچوں کے نقطہ نظر سے سوچتے ہی نہیں۔اس کے ساتھ قریبی راشتہ داروں کے گھر روں کے محفوظ ہونے کی بات آتاہے جہاں پر بچے اکثرجاتے ہیں۔دوسرا حصہ سکول،مدرسے، چرچ، مندر، گوردوارے،مساجد اوراکیڈمیز کو محفوظ بنانا ہے جہاں پر بچے پڑھنے کے لئے جاتے ہیں۔تیسرا محفوظ کھیل کے میدان ہے جہاں پر بچے کھیل کود کے لئے گھر سے نکل کرجاتے ہیں۔
محفوظ بچپن کا مہم بشرہ اقبال نے 2018میں پشاور میں ایک غیر سرکاری تنظیم اور نامور ماہر نفسیات کے خالد مفتی، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے مدد سے تربیتی ورکشاپ کے انعقادسے شروع کیا۔سرکاری اور نجی یونیورسٹیز، اساتذہ اور ڈاکٹروں کیساتھ آگاہی نشستیں کرائی گئی۔
بُشریٰ اقبال حسین: جب بھی تربیتی سرگرمی کا انعقاد کیاجاتاہے تو میں والدین سے پہلا سوال پوچھتاہوں کہ آپ کو مذہب اورپاکستان کے قانون کے مطابق پتہ ہے کہ بچو ں کے حقوق کیا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ تربیت کرنا، خیال رکھنا وغیرہ۔ لیکن میں اُنہیں کہتی ہو کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی وہ جائیداد میں وراثت کا حقدار بن جاتاہے اُس کے بعدباقی چیزیں آتے ہیں۔دوسرا سوال یہ ہوتاہے کہ کیا گھر میں آپ اپنے بچوں کی عزت کرتے ہیں؟توعموماً جواب ملتا ہے کہ ہم اُن کے اُوپر خرچ کرتے ہیں،اُن کو پڑھانے کے لئے کما رہے ہیں۔ اصل میں بچوں کا ان باتو ں سے کوئی عرض نہیں آگر آپ انفرادی طورپر اُن کی عزت نہیں کرتاتوآپ کچھ نہیں کررہے ہیں۔
بُشریٰ اقبال حسین اور اُن کا ٹیم رضاکارانہ یہ تمام سرگرمیاں کررہے ہیں۔ پشاور کے بعد اُنہوں نے اسلام آباد آکر قائد اعظم یونیورسٹی، نجی سکولوں اور والدین کے ساتھ سیشن لی جبکہ اس کے بعد سوشل میڈیا کے وساطت سے اپنے کا م شروع کیا اور فیس بُک بیج سے ہفتہ وار لائیو مباحثے اور معلوماتی وڈیوز کے ذریعے لوگوں کو معلومات پہنچایا جاتاہے۔ ان ماہرین، اساتذہ، والدین اور بچوں کواپنے خیالات کے اظہار کاموقع دیا جاتاہے۔
بشرہ اقبال حسین:بچوں کے تعلیم، مشقت اور صحت کے حوالے سے لوگ بات کرتے ہیں تاہم جنسی حراسانی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا اور اس کو اچھا نہیں سمجھتاتاہم جس طریقے سے مواتر واقعات سامنے آنے بعد لوگ مجبور ہوکر چاہتے ہیں کہ ان مسائل کے حوالے آگاہی ہو اور روک تھام کے موثر اقدمات کیں جائے۔ لیکن یہ سب کچھ آسان کام نہیں۔
معاشرے میں عام بچوں کے حقوق کے حوالے سے بات ہوتی ہے جو جسمانی طور پر ٹھیک ہوتے ہیں لیکن اُن بچوں کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا جو معذری کا شکارہو۔ ایسے بچوں کوخاندان اور معاشرہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس اعداد شمار اور معلومات موجود نہیں۔ اس کے علاوہ ان بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی پالیسی یا قانون موجود نہیں ہے جس کے وجہ سے ان کے مسائل کافی زیادہ اور پیچیدہ ہے۔ بشرہ اقبال حسین نے اپنے ٹیم کی مدد سے خصوصی بچوں کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کیا ہے۔
بُشریٰ اقبال حسین: معاشرے میں اگر کوئی خصوصی بچوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو باہر کے لوگ تو کیا والدین بھی اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔کسی گھر میں آگر معذور بچہ ہو تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ والدین نے غلط کام کر کے اس وجہ سے بچے اسطرح پیدا ہوئے، اسطرح بہت سے باتیں سننے کو ملتی ہے جوکہ نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ کافی تکلیف دہ بھی ہے۔ یہ عام بات ہے کہ گھروں میں والدین نارمل بچے پر زیادہ خرچ کرتے ہیں اور اس کو ایک قسم کی مستقبل کے لئے سرمایہ کاری تصور کیا جاتاہے جبکہ معذور بچے پر خرچ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کیا فائدہ ہے۔خصوصی بچوں کے پڑھائی کے لئے کوئی خاص ادارے موجود نہیں جس کے وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
پچھلے سال اپریل میں کرونا وباء کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہوئے تو بچوں کی پڑھائی انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن ہوگئی تو ان بچوں کے ڈیجٹیل سیکورٹی یا تحفظ کا نیا مسئلہ سامنے آیا۔ بشرہ اقبال حسین اور اُن کے ٹیم نے بچوں کو تحفظ دینے کے لئے آگاہی مہم کا آغاز جس میں آن لائن بچوں کے تحفظ اور والدین کو ذمہ داریوں کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے رہے۔
بُشریٰ اقبال حسین:کروناوباء کی وجہ سے بچوں کا زیادہ وقت دیجٹیل آلات اور آن لائن گزرتاتھا جو ان کے تحفظ کے حوالے ایک نیا چیلنچ بن گیا کیونکہ پہلے ایک تو تیاری نہیں تھی اور دوسری اس حوالے سے اُردو میں معلومات بھی موجود نہیں تھے۔ اس کے لئے ” محفوظ بچپن ” کے زیر اہتمام آگاہی سیمنارز کا ایک سیریز شروع کیا جس میں والدین اوربچوں کے آگاہی کے لئے کام کیا۔اس میں یہ بتایاگیاکہ کیسے اپنا شناخت کو محفوظ رکھیں، محفوظ پاسورڈ کیسے بنایا جاسکتاہے، تصویر ووڈیوکو شیئرکرنے میں احتیاط برتنا وغیرہ۔اس میں والدین کو یہ بھی بتایا گیا کہ بچوں کو سمارٹ ڈیجٹیل آلات مثلاً موبائل اورآئی پیڈ کے بجائے ڈیسک ٹاپ سسٹم بچوں کو مہیا کیا جائے اور اُن کو ایسے جگہ پر آن لائن کلاس کے بیٹھایا جائے تاکہ وہ والدین اور گھر کے دیگر افراد کے نظر میں ہوں۔
بچوں کے مسائل پر کام کرنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اُن کے حقوق کے حوالے ایک تو لوگوں میں شعور کی کمی ہے اور دوسرا معاشرے میں شدت پسندانہ راویوں نے اس میں مزید اضافہ کردیاہے۔
بُشریٰ اقبال حسین: اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے حوالے بہت زیادہ مسائل معاشرے میں موجود ہے جس پر کام کرنا وقت کی ضرورت ہے تاہم جب ہم ان بچوں کیساتھ ایسے مسائل پر بات کرتے جس پر معاشرہ اور والدین بات نہیں کرتا تو آپ جب اس حوالے سے سوشل میڈیا یا کسی سیمینار میں اس پر بات کرتے ہیں تو آپ کو مزحمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔
بچوں کے حوالے سے مسائل پر بات کرنا حساس کام ہے لیکن معلومات کو لوگوں تک پہنچانے سے پہلے تحقیق اور شعبے کے ماہرین کے ساتھ بات کیاجاتاہے۔ باوجود اس کہ کہی سے کوئی مالی تعاون نہیں کررہاہے لیکن اس کے باوجود بھی محفوظ بچپن کا مہم جاری ہے۔
بُشریٰ اقبال حسین: لوگ کہتے ہیں کہ مالی مدد کے لئے کسی کے ساتھ بات کریں، سوشل میڈیا کو مناٹیز کریں اور سپانسر کریں تاکہ زیادہ سے زیاد ہ لوگوں تک پیغام پہنچ جائے۔میرا رائے لوگوں سے مختلف ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ اگر آپ کچھ کرناچاہتے ہوتو آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں اس وجہ سے میں زیادہ توجہ ان چیزوں پر نہیں دیتا۔ واقعی یہ ایک مشکل کام ہے کہ معلومات دینے سے پہلے ماہرین کے رائے لی جاتے اوراُس کے بنیادپر معلوما شیئر کیاجاتاہے اور ہم چاہتے کہ حقیقی لوگو ں تک رسائی چاہتے جو راضہ کارانہ طورپر ہمارے پیغام کو قبول کریں۔
پاکستان میں بچوں پر تشدد اور اُن کے حقوق کے پامالی کے حوالے سے واقعات میں ماضی کے مقابلے میں یا تو اضافہ ہوا اور یا اب رپورٹ ہونا شروع ہوگیا ہے تاہم اس حوالے سے اب ضرور یہ سوالات اُٹھنا شروع ہوئے کہ کیسے بچوں کو محفوظ بنایا جائے اور کس قسم کے قوانین لائی جائیں جس سے اُن کو تحفظ مل سکے۔یہ سوالات میڈیا اور عام لوگوں کے ذہنوں میں صرف اُس وقت زیر گردیش رہتے ہیں جب تک کوئی دوسرا واقعہ سامنے نہیں آتا لیکن صحافی اور ماہر نفسیات بُشریٰ اقبال حسین نے 2018 میں پشاور سے”محفوظ بچپن ” کے نام سے ایک ایسا مہم شروع کیا جن میں بچوں کو درپیش مسائل کے حل اور آگاہی کے حوالے سے موضوعات پر بات ہوتی ہے۔ہمارے نمائندے اور سینئر صحافی اسلام گل آفریدی نے اُن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے۔
بُشریٰ اقبال حسین:2018میں زینب کے واقعے کے بعد بچوں پر تشدد کے حوالے سے واقعات میں اضافہ ہوا اور عموماً زیادتی کے شکار بچے یا بچیوں کے عمریں سات سے نو سال اور زیادتی کرنے والے کی عمریں 14 سے 21 سال تک تھے۔ اسی وجہ سے میرے ذہن میں بحیثیت ماہر نفسیات یہ سوالات اُٹھنے لگے کہ دونوں طرف بچے ہیں اور ضرور اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاہم پاکستان میں بچوں کے حوالے جب آپ بات کرتے ہیں تو ہر لحاظ سے آپ کو نہ ہونے کے برابر معلومات اور تحقیق آپ کو ملے گی تاہم اکثریت درمیانے یا مڈل کلاس کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بچے زیادتی کے شکار ہوتے ہیں۔
پانچ سے سال تک کے عمر کے بچے گھر والوں کے طرف سے عزت اور بے عزتی کو محسوس کرتے ہیں اور اس وجہ سے وہ والدین کے روئیے پر ردعمل کا اظہارکرتے ہیں۔ بچہ یہی محسوس کرنا شروع کردیتاہے کہ گھر میں اُن کے ساتھ والدین یا بڑے بہن بھائیوں کا رویہ دوستانہ نہیں اور وہ اکیلاپن کا شکار ہوکر یا تو گھر سے بھاگنے کی کوشش کرتااور تخریبی ذہن کے قریبی رشتہ دارکے جھانسے میں آکر مسائل کے شکار ہوجاتے ہیں۔
بُشریٰ اقبال حسین: والد محنت مزدوری میں سارا دن گھر سے باہر ہوتا ہے اور والدہ گھر کے کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے بچے کے گھومنے سے بے خبر رہتی ہے۔اس صورتحال کو دیکھ اکثرکیسز میں قریبی رشتہ دار اس بچے کے نفسیات کو جانچ کریہ اندازہ لگالیتے ہیں کہ ان کو گھر میں توجہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ گھر سے باہر کے بندے کو ہمدرد سمجھ کر اُس پر اعتبار کرلیتا ہے اور اسطرح وہ جنسی تشدد کا شکار ہوجاتاہے۔
بچوں کے حوالے ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بشرہ اقبال حسین نے "محفوظ بچپن” مہم میں تین بنیادی چیزوں کو متعارف کروایا جن میں محفوظ گھر، محفوظ سکول یا مدرسہ اور محفوظ کھیل کے میدان۔
بُشریٰ اقبال حسین: محفوظ گھر کی اگر ہم بات کرتے ہیں تو اس میں کافی چیزیں آجاتی ہیں لیکن ہم نے کبھی اس بات پر توجہ ہی نہیں دی،مثال کے طور پرگھر میں بچہ کیسے بڑوں کے جنسی اورجسمانی تشدد سے کیسے محفوظ کیاجاسکتاہے۔بچہ پانی میں ڈوب گیا، کرنٹ لگنے اور چھت گرنے اور یا تیز دار آلات سے اپنے آپ کو زخمی کرنے کے واقعات عام ہوتے رہتے جس کی بنیادی وجہ ہمارے گھروں کی تعمیر کو بچوں کے نقطہ نظر سے سوچتے ہی نہیں۔اس کے ساتھ قریبی راشتہ داروں کے گھر روں کے محفوظ ہونے کی بات آتاہے جہاں پر بچے اکثرجاتے ہیں۔دوسرا حصہ سکول،مدرسے، چرچ، مندر، گوردوارے،مساجد اوراکیڈمیز کو محفوظ بنانا ہے جہاں پر بچے پڑھنے کے لئے جاتے ہیں۔تیسرا محفوظ کھیل کے میدان ہے جہاں پر بچے کھیل کود کے لئے گھر سے نکل کرجاتے ہیں۔
محفوظ بچپن کا مہم بشرہ اقبال نے 2018میں پشاور میں ایک غیر سرکاری تنظیم اور نامور ماہر نفسیات کے خالد مفتی، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے مدد سے تربیتی ورکشاپ کے انعقادسے شروع کیا۔سرکاری اور نجی یونیورسٹیز، اساتذہ اور ڈاکٹروں کیساتھ آگاہی نشستیں کرائی گئی۔
بُشریٰ اقبال حسین: جب بھی تربیتی سرگرمی کا انعقاد کیاجاتاہے تو میں والدین سے پہلا سوال پوچھتاہوں کہ آپ کو مذہب اورپاکستان کے قانون کے مطابق پتہ ہے کہ بچو ں کے حقوق کیا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ تربیت کرنا، خیال رکھنا وغیرہ۔ لیکن میں اُنہیں کہتی ہو کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی وہ جائیداد میں وراثت کا حقدار بن جاتاہے اُس کے بعدباقی چیزیں آتے ہیں۔دوسرا سوال یہ ہوتاہے کہ کیا گھر میں آپ اپنے بچوں کی عزت کرتے ہیں؟توعموماً جواب ملتا ہے کہ ہم اُن کے اُوپر خرچ کرتے ہیں،اُن کو پڑھانے کے لئے کما رہے ہیں۔ اصل میں بچوں کا ان باتو ں سے کوئی عرض نہیں آگر آپ انفرادی طورپر اُن کی عزت نہیں کرتاتوآپ کچھ نہیں کررہے ہیں۔
بُشریٰ اقبال حسین اور اُن کا ٹیم رضاکارانہ یہ تمام سرگرمیاں کررہے ہیں۔ پشاور کے بعداُنہوں نے اسلام آباد آکر قائد اعظم یونیورسٹی، نجی سکولوں اور والدین کے ساتھ سیشن لی جبکہ اس کے بعد سوشل میڈیا کے وساطت سے اپنے کا م شروع کیا اور فیس بُک بیج سے ہفتہ وار لائیو مباحثے اور معلوماتی وڈیوز کے ذریعے لوگوں کو معلومات پہنچایا جاتاہے۔ ان ماہرین، اساتذہ، والدین اور بچوں کواپنے خیالات کے اظہار کاموقع دیا جاتاہے۔
بشرہ اقبال حسین:بچوں کے تعلیم، مشقت اور صحت کے حوالے سے لوگ بات کرتے ہیں تاہم جنسی حراسانی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا اور اس کو اچھا نہیں سمجھتاتاہم جس طریقے سے مواتر واقعات سامنے آنے بعد لوگ مجبور ہوکر چاہتے ہیں کہ ان مسائل کے حوالے آگاہی ہو اور روک تھام کے موثر اقدمات کیں جائے۔ لیکن یہ سب کچھ آسان کام نہیں۔
معاشرے میں عام بچوں کے حقوق کے حوالے سے بات ہوتی ہے جو جسمانی طور پر ٹھیک ہوتے ہیں لیکن اُن بچوں کے بارے میں کوئی نہیں سوچتاجومعذری کا شکارہو۔ ایسے بچوں کوخاندان اور معاشرہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس اعداد شمار اور معلومات موجود نہیں۔ اس کے علاوہ ان بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی پالیسی یا قانون موجود نہیں ہے جس کے وجہ سے ان کے مسائل کافی زیادہ اور پیچیدہ ہے۔ بشرہ اقبال حسین نے اپنے ٹیم کی مدد سے خصوصی بچوں کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کیا ہے۔
بُشریٰ اقبال حسین: معاشرے میں اگر کوئی خصوصی بچوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو باہر کے لوگ تو کیا والدین بھی اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔کسی گھر میں آگر معذور بچہ ہو تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ والدین نے غلط کام کر کے اس وجہ سے بچے اسطرح پیدا ہوئے، اسطرح بہت سے باتیں سننے کو ملتی ہے جوکہ نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ کافی تکلیف دہ بھی ہے۔ یہ عام بات ہے کہ گھروں میں والدین نارمل بچے پر زیادہ خرچ کرتے ہیں اور اس کو ایک قسم کی مستقبل کے لئے سرمایہ کاری تصور کیا جاتاہے جبکہ معذور بچے پر خرچ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کیا فائدہ ہے۔خصوصی بچوں کے پڑھائی کے لئے کوئی خاص ادارے موجود نہیں جس کے وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
پچھلے سال اپریل میں کرونا وباء کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہوئے تو بچوں کی پڑھائی انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن ہوگئی تو ان بچوں کے ڈیجٹیل سیکورٹی یا تحفظ کا نیا مسئلہ سامنے آیا۔ بشرہ اقبال حسین اور اُن کے ٹیم نے بچوں کو تحفظ دینے کے لئے آگاہی مہم کا آغاز جس میں آن لائن بچوں کے تحفظ اور والدین کو ذمہ داریوں کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے رہے۔
بُشریٰ اقبال حسین:کروناوباء کی وجہ سے بچوں کا زیادہ وقت دیجٹیل آلات اور آن لائن گزرتاتھا جو ان کے تحفظ کے حوالے ایک نیا چیلنچ بن گیا کیونکہ پہلے ایک تو تیاری نہیں تھی اور دوسری اس حوالے سے اُردو میں معلومات بھی موجود نہیں تھے۔ اس کے لئے ” محفوظ بچپن ” کے زیر اہتمام سیریز شروع کیا جس میں والدین اوربچوں کے آگاہی کے لئے کام کیا۔اس میں یہ بتایاگیاکہ کیسے اپنا شناخت کو محفوظ رکھیں، محفوظ پاسورڈ کیسے بنایا جاسکتاہے، تصویر ووڈیوکو شیئرکرنے میں احتیاط برتنا وغیرہ۔اس میں والدین کو یہ بھی بتایا گیا کہ بچوں کو سمارٹ ڈیجٹیل آلات مثلاً موبائل اورآئی پیڈ کے بجائے ڈیسک ٹاپ سسٹم بچوں کو مہیا کیا جائے اور اُن کو ایسے جگہ پر آن لائن کلاس کے بیٹھایا جائے تاکہ وہ والدین اور گھر کے دیگر افراد کے نظر میں ہوں۔
بچوں کے مسائل پر کام کرنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اُن کے حقوق کے حوالے ایک تو لوگوں میں شعور کی کمی ہے اور دوسرا معاشرے میں شدت پسندانہ راویوں نے اس میں مزید اضافہ کردیاہے۔
بُشریٰ اقبال حسین: اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے حوالے بہت زیادہ مسائل معاشرے میں موجود ہے جس پر کام کرنا وقت کی ضرورت ہے تاہم جب ہم ان بچوں کیساتھ ایسے مسائل پر بات کرتے جس پر معاشرہ اور والدین بات نہیں کرتا تو آپ جب اس حوالے سے سوشل میڈیا یا کسی سیمینار میں اس پر بات کرتے ہیں تو آپ کو مزحمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔
بچوں کے حوالے سے مسائل پر بات کرنا حساس کام ہے لیکن معلومات کو لوگوں تک پہنچانے سے پہلے تحقیق اور شعبے کے ماہرین کے ساتھ بات کیاجاتاہے۔ باوجود اس کہ کہی سے کوئی مالی تعاون نہیں کررہاہے لیکن اس کے باوجود بھی محفوظ بچپن کا مہم جاری ہے۔
بُشریٰ اقبال حسین: لوگ کہتے ہیں کہ مالی مدد کے لئے کسی کے ساتھ بات کریں، سوشل میڈیا کو مناٹیز کریں اور سپانسر کریں تاکہ زیادہ سے زیاد ہ لوگوں تک پیغام پہنچ جائے۔میرا رائے لوگوں سے مختلف ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ اگر آپ کچھ کرناچاہتے ہوتو آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں اس وجہ سے میں زیادہ توجہ ان چیزوں پر نہیں دیتا۔ واقعی یہ ایک مشکل کام ہے کہ معلومات دینے سے پہلے ماہرین کے رائے لی جاتے اوراُس کے بنیادپر معلوما شیئر کیاجاتاہے اور ہم چاہتے کہ حقیقی لوگو ں تک رسائی چاہتے جو راضہ کارانہ طورپر ہمارے پیغام کو قبول کریں۔