سیدرسول بیٹنی
پشاور:جامعہ پشاور کے انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ سٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے کہا ہے کہ افغانستان ایک دفعہ پھر عالمی میڈیا،سیاست،معاش اور معاشرتی مشکلات کے ساتھ ساتھ سماجی امتحانات سے دوچار ہے اور پوری دنیا کی توجہ اس وقت افٖغانستان میں ایک روشن مستقبل اور پائیدار امن کے قیام کی طرف ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار “دی پشاور پوسٹ” کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہا کہ افغانستان جنوبی ایشیا اور مرکزی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے جو کہ دونوں خطوں کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرتا ہے،اگر یہاں امن کو فروغ ملتا ہے تو اس کے نتیجے میں دونوں خطوں کے اقوام سکون اور خوشجالی کے ساتھ رہینگے اور اگر خدانخواستہ جنگ کی فضا بنے گی تو اس کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔
ڈاکٹر جمیل چترالی نے کہا کہ جس کسی نے افغانستان کو قریب سے دیکھا ہے یعنی ماضی قریب میں خود وہاں گیا ہے تو وہ بہتر طور پر افغانستان کے مسئلے کا ادراک رکھتا ہے،پچھلے 20 سالوں میں افغانستان نے کافی ترقی کی ہے۔ وہاں پر نئے تعلیمی،معاشرتی ادارے اور ایک مکمل سیاسی و انتظامی نظام کا وجود عمل میں آچکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2010 سے لے کر2021 تک افغانستان میں ترقی کا عمل جاری تھا وہاں پر تیزی کے ساتھ نئی تبدیلیاں دیکھی گئیں امریکہ کے انخلا کے بعد اگر یہ تمام چیزیں دوبارہ مسمار ہوتی ہے تو یہ بربادی صرف افغانستان تک محدود نہیں رہیگی اور اس دفعہ افغانستان میں طویل جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ اگر وہاں تباہی آئیگی تو سارا خطہ اپنی لپیٹ میں لیں گی اور یہ عمل ماضی کی طرح دہائیوں پر محیط نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس بار یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر جنگ کی صورت میں بربادی آئی تو وہ کم مدتی ہوگی اور پہلے سے بہت زیادہ خطرناک ہوگی اور اس کے اثرات پاکستان پر بہت گہرے ہونگے، ایران و تاجکستان اور دوسرے پڑوسی ممالک پر ہونگے لیکن پاکستان پر اس کے بہت گہرے اثرات ہونگے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان حالات کا ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ افغانستان میں پر امن طریقے سے حالات بہتر ہوجائیں اور پاکستان اس بار بہت محتاط طریقے سے تمام معاملات کو دیکھ بھی رہا ہے اور خود کو حتی الوسع فریق نہیں بنا رہا ہے اور ایسے حالات میں پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دوسرے گروہوں کی حمایت کا اعلان نہیں کر رہا جو کہ ایک بہتر عمل ہے۔