اسلام گل آفریدی
موجودہ وقت میں علاقے سے ممبر قومی اسمبلی اقبال آفریدی اور ہسپتال کے طبی عملے کے درمیان کرونا ویکیسن ڈیسک کے افتتاح پر جاری کشیدگی کے بناء پر پچھلے پانچ دنوں سے احتجاجاً ہسپتال میں تمام طبی سہولیات نامعلوم مدت تک معطل کردیاگیا ہے لیکن یہاں پر ہم نے علاقے کے عوام کے لئے دینے جانے والے علاج معالجے کی حکومتی اقدامات کا جائزہ لیاگیا ہے۔
ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ میں طبی سہولیات دینے کے لئے واحد ٹائپ ڈی ہسپتال ڈوگرہ کام کررہا ہے جو کہ نہ صرف باڑہ بلکہ دیگر اضلاع اور تحصیل کے لوگ بھی یہاں کے سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں۔محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے جانب سے ہسپتال میں چار سپیشلسٹ ڈاکٹر ز کام کررہے لیکن اس کے علاوہ بھی چار شعبوں کے ماہر ڈاکٹر ہسپتال میں موجود ہے۔
ڈوگرہ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جہانگیر خان آفریدی کا کہنا ہے کہ ڈوگرہ ہسپتال چونکہ ٹائپ ڈی ہے اور آفیشل طور پر اس میں چار شعبو ں کے ماہرطبی عملہ موجود ہیں جن میں جنرل سرجن، چلڈرن، گائناکالوجسٹ اور میڈیکل شامل ہے۔ اُن کے بقول عوا م کے ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے محکمہ صحت نے دیگر چار شعبو ں کے ماہر ڈاکٹرز تعینات کردی ہے جن میں ای این ٹی، سکین، ارتھوپیڈک اور الٹراساونڈ کے لئے مرد اور خاتون عملہ موجود ہے اور اسطرح آٹھ مختلف شعبوں میں عوام کو طبی سہولیات مہیاکیاجارہاہے۔
جمرود اور لنڈی کوتل میں قائم ہسپتالوں میں اوپی ڈی کے مقرر اوقات صبح آٹھ سے دو بجے تک جبکہ ٹیسٹ وغیرہ کے سہولت موجود نہیں ہوتا لیکن باڑہ ڈوگرہ ہسپتال میں یہ سہولت رات آٹھ بجے تک ہوتی ہے اور ایمرجنسی اور زیچہ بچہ کی سہولت چوبیس گھنٹے موجود ہوتی ہے۔قبائلی اضلاع میں عوا م کو بہتر طبی سہولیات مہیا کرنے کے لئے اے آئی پی پر وجیکٹ کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے تحت قبائلی اضلاع میں نئے بھرتی ہونے والے سپشلسٹ ڈاکٹرز کو ساڑھے چار لاکھ جبکہ سی ایم او کو ساڑھے تین لاکھ ماہانہ تنخواہ دیا جاتاہے۔اس منصوبے کے تحت پسماندہ قبائلی اضلاع میں صحت کے شعبے میں بہتر ی کے اثر دیکھائی دے رہاہے۔
موجودہ وقت میں محدود وسائل کے باجود ڈوگر ہ ہسپتال میں تین مختلف شعبوں جن جنرل، ارتھوپیڈک اورای این ٹی شامل ہے جن میں سرجری کیا جاتا ہے اورجلدگائنی کے شعبے میں بھی میں مریضوں کو سرجری کی سہولت مہیا کیا جائیگا تاہم ڈاکٹر جہانگیر خان کے مطابق موجودہ وقت ہسپتال میں ایسے ماہر ڈاکٹرز موجود ہے کہ آگر بڑے آپریشن کے لئے ضروری سہولیات جن میں بلڈ بینک اور دیگر ضروریات مہیا کی جائے تو یہاں پر بڑے سرجریاں بھی ممکن ہے۔
ڈوگرہ ہسپتال سے تحصیل باڑہ کے مختلف علاقوں اور وادی تیراہ کے لوگ مستفید ہورہے ہیں اس کے علاوہ تحصیل جمرود کے شاہ کس،پشاور کے علاقے شیخان، سنگو، سربند، پشتحرہ اور ضلع اورکزئی سے بھی مریض یہاں پر علاج کے لئے آتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ لوگ اس ایک ہسپتال کو طبی سہولیات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
عدنان باڑہ نالہ گاؤں کے رہائشی ہے اور آج اُن کی بچی کی ہرنیا کی آپریشن ڈوگرہ ہسپتال میں ہو چکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ گھر میں بچی کو درد کی شکایت تھی او ر جب یہاں پر ڈاکٹر کے پاس لائے تو تشخیص سے پتہ چلا کہ ان کی ہرنیاکا مسئلہ ہے اور سرجری کی ضرورت ہے۔اُن کا کہناتھاکہ صبح آپریشن ہو ا اور اب مریض وارڈ میں موجود ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق ڈوگرہ ہسپتال میں ماہانہ دس ہزار سے زیادہ مریض اوپی ڈی میں آتے ہیں جن میں اکثریت بچو ں او ر خواتین کی ہیں۔اس تعداد میں مزید اضافہ وقتاًفوقتاً ہوجاتاہے جب ہسپتال میں مفت ادویات موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن مریضوں کے آپریشن کی گئے ہو اُن کو وارڈ میں داخلے کے تمام سہولیات موجود ہوتے ہیں۔لیکن طبی عملے کی اصل توجہ اوپی ڈی کے بجائے مستقل علاج کے لئے آنے والے مریضوں پرہوتا ہے کیونکہ او پی ڈی میں اکثر لو گ صرف ادویات کے حصول کے لئے آتے ہیں۔
ممبر صوبائی اسمبلی محمد شفیق کے کوششو ں سے گائنی، ریڈیالوجسٹ اور آرتھوپیڈک کے سہولیات میسر ہوئی۔ اُنہوں نے کہاکہ ہسپتال میں دیگر سہولیات کے اضافے کے لئے صوبائی وزیر صحت و خزانہ تیمور سیلم جھگڑا نے نہ صرف ہسپتال کا دورہ کیا تھا بلکہ باقاعدہ طورپرمسائل کے حل کا وعدہ بھی کیا تھا۔
صحت کارڈ کے سہولت ڈوگرہ ہسپتال میں عوام کو مہیاکرنے کے لئے درخواست متعلقہ ادارے کو بھیج دیاگیا ہے اور جلد عوام کو تمام طبی سہولت مفت دینا شروع ہو جائیگی۔ ڈاکٹر جہانگیر کا کہنا ہے کہ صحت کارڈ پر ڈوگرہ ہسپتال میں سہولیات مہیاکرنے کے لئے ادارے کے جانب سے ایک شرط ہسپتال میں گائیکالوجسٹ کی موجودگی تھی جوکہ اب یہاں پر موجودہے۔ اس سلسلے میں ادارے کو دوبارہ خط ارسال کردیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ جلد یہاں کے مریضوں کو بھی صحت کارڈ پر طبی سہولیات مہیاکرنا شروع ہو جائیگی۔
انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں عدالتوں کو توسیع دینے کے بعد پرتشدد واقعات میں نشانہ بننے والے افراد کے پوسٹ مارٹم لازمی قرار دیاگیا لیکن باوجود اس کے کسی بھی ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے لئے درکار الگ عمارت اور عملہ موجود نہیں لیکن اس کے باوجود بھی پہلے سے موجود عملے سے اس حصے میں اُن سے خدمات لی جاتی ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر جہانگیر خان آفریدی نے بتایاکہ حکومت کے جانب سے صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح پوسٹ مارٹم کے لئے درکار مخصوص عمارت اور عملہ اب تک تعینات نہیں کیا گیا ہے البتہ ایک دو ڈاکٹروں نے خیبر میڈیکل کالج سے باقاعدہ تربیت حاصل کرلیا ہے اور یہاں پر باقاعدہ پوسٹ مارٹم کے رپورٹنگ ہوتی ہے اور اگر متاثرہ لوگ عدالت میں اُس رپورٹ کو پیش کرتا ہے تو باقاعدہ ہمارے ڈاکٹر اپنے رپورٹ کے دفاع کے لئے عدالت میں حاضر ہوتے ہیں۔
پچھلے کئی دنوں سے باڑہ میں لشمینا سے متاثرہ مریضوں کے تعداد میں اضافے اور ادویات نہ ہونے کی شکایت سامنے آئی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر جہانگیر نے کہاکہ یہی وہ مریض ہے جوپہلے سے لشمینا سے متاثر تھے تاہم ہسپتال میں ان کے لئے درکار انجکیشن ختم ہوگئے ہیں تو اس وجہ سے عوام کے طرف سے شکایت سامنے آئے تھے۔
اُنہوں نے کہاکہ محکمہ صحت سے مزید انجکشن مانگوائیں گئے ہیں اور جیسے ہی یہ پہنچ جاتے ہیں تو اُن مریضوں کو مہیا کئے جائینگے۔ڈوگرہ ہسپتال میں سال2020میں لشمینیا کے 807مریض رجسٹرڈ ہوئے تھے جبکہ علاج کے لئے 4170مریض آئے تھے۔ رواں سال کے پہلے مہینے میں 50، فروری میں 63، مارچ میں 91رجسٹرڈ ہوئے تھے۔اس سلسلے میں پہلے علاقے کے مخیر حضرات اور سماجی ادارے یہی انجکشن مہیاکرنے میں ہسپتال کی مدد کرتے تھے۔
حکام کے مطابق محکمہ صحت ڈوگرہ ہسپتال کو بی کیٹگر ی کا درجہ دینے کے لئے پارلیمانی ممبران سرگرم عمل ہے اور اس سلسلے میں کئی اہم ملاقاتیں بھی کی جاچکی ہیں۔ جبکہ موجود وقت میں ہسپتال کو چند ایک مسائل کا سامنا ہے جس میں ہسپتال کے آپریشن تھیٹر، ایمرجنسی اور گائنی وارڈ میں ائرکینڈیشن کی سہولت کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں مریض مشکلات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
کئی سال پہلے ہسپتال میں بجلی کے ضروریا ت پورا کرنے کے لئے 35کلوواٹ سسٹم نصب کیا گیا تھا جوناکارہ آلات کے تنصیب کی وجہ سے جلد یہ خراب ہوا اور اب تک یہ ناکارہ ہے۔ کئی بار شکایت کے باوجود بھی اس پر کمپنی کے طر ف سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ ہسپتال کے چار کلاس فور ملازمین کئی سال پہلے ریٹائیرڈ ہوچکے ہیں۔ صوبائی حکومت کے پابندی کی بنا ء پر اب تک کسی کو اس عہدے پر تعینا ت نہیں کیا گیا ہے جس کے وجہ سے ہسپتال میں صفائی باہر ایک بندے کو پیسے دیکر کیا جاتا ہے۔