اقبال مہمند
پشاور:عورتوں کا عالمی دن کی مناسبت سے عورت فاونڈیشن کے زیر اہتمام پشاور پریس کلب میں ایک تقریب منعقد ہو ئی۔تقریب کا مقصد خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں رہنے والی خواتین کے مسائل سے صوبائی حکومت کو خبردار کرنا تھا۔تقریب میں شبینہ ایاز،گلالئی اسما عیل ،ثنا ء اعجاز اور د یگر سما جی کار کنوں کے علاوہ پشاور کے مختلف یونیورسٹیز اور کالجزمیں زیر تعلیم طالبات نے کثیر تعداد میں شر کت کی ۔
مقرر ین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گھر یلو تشدد کے حوالے سے کوئی قانون نہیں بنائی گئی ہے جبکہ نہ تو خواتین کو ان کی برابر ی کا حصہ د یا جا تا ہے اور معاشرے کے تنگ نظری کی وجہ ہماری عورتیں طرح طرح کی مسائل کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ خواتین کیلئے مردوں کی طر ح کو ئی اجر ت بھی مقرر نہیں جبکہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ کام کرتے ہیں اور زیادہ متاثر ہو تی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں تقر یبا 2 کروڑ سے زیاد ہ خواتین گھروں میں کام کرتی ہے اور اپنی پیٹ پالتی ہے ، اس کے علا وہ خواتین ملکی معیشت میں ر یڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت ر کھتی ہے لیکن پھر بھی ان کو اپنا حق نہیں د یا جا تا ہے ۔انہوں نے کہاکہ قبائلی اضلاع سمیت دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں خواتین کیلئے کو ئی تعلیمی نظام موجو د نہیں جبکہ اسی وجہ سے وہ تعلیم کی میدا ن سے دور رہ جاتی ہے ۔انپوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلی اضلاع میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے، اور وہاں خواتین کیلئے ایک الگ یونیورسٹی قائم کریں تاکہ جنگ سے متاثر قبائلی عوام کی معیار زندگی میں بہتری آسکیں.
مقررین نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت تعلیمی نصاب کو جمہوری، سائنسی اور سیکولر بنیادوں پر بنانے اور طلباء یونین بحال کو بحال کریں اور کہا کہ بیشمار لڑکیاں قریبی ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے مڈل کے بعد سکول چھوڑ دیتی ہیں جس کا ذمہ دار حکومت وقت ہے۔
انہوں نے کہاکہ خواتین کے حقو ق ، تحفظ اورمعاشی استحصال روکنے اور دیگر مشکلات کیلئے قانون سازی کی جائیں۔انہوں نے کہاکہ پوری دنیا میں عورتوں کا عالمی دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور پشاور کے خواتین نے بھی اس سال عورتوں کا عالمی دن منا کر یہ پیغام دیا کہ پشتون خواتین بھی اپنی حقوق کے لئے کوشاں ہےاور مطالبہ کیا کہ افضل کوہستانی نے عورتوں کے حقوق کے لئے اپنی جان دی حکومت اسکے قاتلوں کو قرار واقع سزا دے ۔
مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گھریلوں تشد د کے قانون ،ہراسگی کے حوالے سے آگاہی مہم کیساتھ ساتھ نجی اور سرکاری اداروں میں ہراسگی کے خلاف شکایات سیل ،خواتین کو خود مختار بنانے کیلئے جا معہ پالیسی سمیت نئی اضلاع میں انتخابات میں سیاسی جماعتیں عورتوں کو 5 فیصد پارٹی ٹکٹ دے اور غیر مسلم خواتین کو بھی ضم شدہ اضلاع میں نمائندگی کے لئے قانون سازی کی جائیں جس سے خواتین کو درپیش مشکلات کا سدباب ممکن ہوگابعد ازاں خواتین نے پشاور پریس کلب سے آرکائیوہال تک امن مارچ بھی کیا۔
مقررین نے کہا کہ عورتوں کی اکثریت غیر رسمی شعبے میں کام کرتی ہے جس پر مزدور قوانین کا اطلاق نہیں کیا جا رہا۔پختونخوا حکومت سے مساوی اُجرت ، جبری مشقت پر پابندی ، کنٹریکٹ سسٹم کا خاتمہ اور مستقل ملازمت میں تبدیلی، غیر رسمی معیشت سے وابستہ مزدور اور کسان کو صنعتی مزدور کے مساوی حقوق و مراعات، اور تمام شعبوں میں عورتوں کو ملازمت کے مساوی حق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے صوبائی حکومت سے کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے تحفظ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کو لیبر لاء کے تحت لانے کے لئے پختونخوا اسمبلی میں زیرِ التوا "ہوم بیسڈ ورکرز پروٹیکشن بل ” کو فوری پاس کیا جائے۔