دوحہ کے بعد ماسکو اور استنبول میں افغان امن کے لئے کانفرنس ضرورت کیوں؟

e6612e40-e8af-4d5b-a571-ca2e79d34191.jpg

اسلام گل آفریدی

پچھلے چھ مہینوں سے قطر کے درلحکومت دوحہ میں بین الافغان مزکرات کے لئے ایجنڈے پر افغان طالبا ن اور افغان حکومت نمائندوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکے جس کے وجہ سے مزکرات کا عمل تعطل کا شکار رہے اور دوسرے جانب ملک میں پر تشد د واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ افغانستان میں طویل جنگ کے اور خطے میں اس سے پیدا ہونے والے صورتحال سے ہمسایہ ممالک بھی کافی پریشان دیکھائی دے رہاہے۔ اس تناظر میں روس نے 18مارچ درالحکومت ماسکو میں افغانستا ن میں قیام امن اور بین الاافغان مزکراتی عمل میں حائل روکاٹوں کو دور کرنے کے لئے کانفرس کا انعقاد کیا جارہاہے۔اس کے علاو ہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ترکی درالحکومت استنبول میں بھی ایک ہم کانفرس کے تیاریاں آخری مرحلے میں ہیں۔ اس پوری تناظر کو خطے کے امور کے ماہرین اور صحافی انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔

سینئر صحافی اور خطے کے امورکے ماہر محمد طاہر خان نے کہاکہ افغانستان میں قیام کے حوالے سے منعقد کیں جانے والے دونوں کانفر س کے اپنے جگہ کافی اہمیت ہے کیونکہ کافی کوششوں اور سخت مرحلے طے کرنے کے بعدامریکہ اور افغان طالبان کے درمیان باقاعدہ مزکرات 2018 دوحہ میں شروع ہوئے اور آٹھار ہ ماہ کے مسلسل کوششو ں کے بعد پچھلے سال فروری کے آخر میں امریکہ اور طالبا ن کے درمیان معاہد ہ طے پایا گیا۔ اس پوری عمل میں قطر بھی کا اتنہائی اہم کردار رہاہے لیکن دیگر ممالک جو کہ بلاوسطہ یا بلوسطہ سے مسئلے سے جوڑے ہیں تو اس قسم کے کانفرس کے اُن کے کرادر اور تجاویز بھی سامنے آئینگے۔

اُنہوں نے کہاکہ بین الافغان مزکرات مسائل کے شکار ہونے کے بعد بات چیت کا عمل روک دیاگیا ہے جبکہ دوسرے جانب ملک میں افغان حکومت کے بقول پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جو کہ حکومت اور عوا م کے لئے کافی تشویش ناک ہے۔ماسکو کانفر س میں روس نے افغان حکومت،طالبان، امریکہ اور خطے کے ممالک جن میں پاکستان، چین،ایران، قطراور دیگر ممالک کو شرکت کی دعوت دی ہے۔طالبان اور افغان حکومت نے کانفر س میں شرکت کی تصدیق کردی ہے۔

کابل میں افغان صحافی انیس رحمان نے بتایاکہ افغانستان میں قیام امن کا مسئلہ اتناآسان اور سادہ نہیں جتنا کہ دنیا کے ممالک سمجھ رہاہے۔اُنہوں نے کہاکہ مسئلے کے حل کے لئے جہا ں بھی مزکرات ہونگے تواس کا فائدہ ہوگا جبکہ بات چیت کا سلسلہ بندہونے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوگا اور جنگ کے خاتمے کے بجائے اُس کا دائرہ وسیع ہوکر خطے کے ممالک کو نقصان اُٹھناپڑیگا۔اُن کے بقول افغان حکومت یہ سمجھتاہے کہ ملک میں قیام کا تعلق صرف طالبان کے ساتھ جوڑ ا نہیں بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی بات کرنا ضروری ہے اور یہی کچھ اپنے والے دنوں کا کانفرسوں میں ہی سامنے لایاجائیگا۔

محمد طاہر خان نے کہاکہ افغانستا ن میں جنگ کے خاتمے کے لئے دونوں جانب سے سخت شرائط رکھے گئے اور ہرایک اپنے موقف سے نہ پچھلے ہٹنے کے لئے تیا ر نہیں اور نہ لچک کا مظاہر کیا جارہاہے جس کے وجہ سے بین الا فغان مزکراتی عمل آگے نہیں بڑھ رہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ طالبا ن موجود ہ حکومت کو تسلیم ہی کرتا اور نہ اس کے حکومت حصہ بنا چاہتاہے، اس کے علاوہ فائر بندی، بیرونی افواج کا انخلاء، آئین میں ترامیم یا نیا آئین بنانااور اسلامی شورا کے قیام کا بھی مطالبہ، تمام قیدیوں کے رہائی اور طالبان رہنماؤں کے نام اقوم متحدہ کے بلیک لسٹ سے نکلنے وغیرہ اہم نکات ہے یہی سب کچھ دوحہ معاہدے میں موجود ہے جس کی توسیع افغان حکومت نے کی اور دنیا کے اہم ممالک کو یہ سب کچھ معلوم ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق خطے میں موجود ہ وقت میں افغان مسئلے میں روس کا کرادر انتہائی اہم ہے کیونکہ ماسکو کا کابل انتظامیہ،طالبان، ایران، چین اور پاکستان کے ساتھ آچھے تعلقات ہے اور شاید ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس اثر ورسوخ کا استعمال کرکے افغان مسئلے کے ساتھ جوڑے ہوئے کھلاڑیو ں کو ایک ہی میدان میں لاکر کھیل کو فیصلہ کن مرحلے کے طرف لے جانا چاہتاہے۔افغان مسئلے کے پرامن حل کے لئے روس 2017سے کوششیں کررہے ہیں اور آنے والا کانفر س اس کی ایک کڑی ہے۔
رواں سال جنوری کے آخر میں طالبان کے ایک اہم وفد نے ایران اور روس کا دورکیاتھا،اس دوران اُنہوں نے روس ہی میں سخت بیان میڈیا کو جاری کیا جس میں کہاگیا تھاکہ طالبان کسی صورت افغان حکومت کے حیثیت کوتسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جس پر افغان حکومت اور عوام نے نارضیگی کا اظہار کیاتھا۔

ماضی میں افغان مسئلے کے حل کے لئے ترکی کا کرادر اتنا سرگرم نہیں رہا ہے البتہ اس میں کوئی شک نہیں موجودہ وقت میں اسلامی ممالک میں وہ اتنہائی اہم مقام رکھتاہے اور شاید اس وجہ سے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کے بناء پر استنبول افغان امن کے میزبان کے طور پر واشنگٹن کے درخواست پر سامنے آیا ہے لیکن محمد طاہر کے کاکہنا ہے کہ ماسکو کے نسبت استنبول کانفرس اس وجہ سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہے کہ یہ عمل اقوم متحدہ کے زیر نگرانی میں ہی ہوگا۔اُنہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں امریکہ اور طالبا ن کے درمیان مزکراتی عمل میں قطر کا کرادر انتہائی اہم رہا ہے لیکن شاید ترکی یا دیگر ممالک کی نسبت اُس کا اثر روسوح اور عمل دخل اتنا زیادہ نہیں ہوگا جس کے وجہ سے امریکہ دیگر ممالک جوکہ افغان مسئلے کے ساتھ جوڑے سامنے لانا چاہتا ہے۔ اُن کے بقول اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ طالبان یا افغان حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک اپنے اثر ورسوح کو استعمال کرکے دونوں فریقین کے موقف میں لچک پیداکرنے میں آسانی ہوجائیگی۔

امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے کامیابی کے بعد افغانستان نومنتخب صدر نے اپنے پہلے بیا ن میں دوحہ معاہدے کے اسرنو جائزہ لینے کی بات کی تھی جس کے وجہ سے بھی طالبان کے جانب سے ردعمل میں کہاگیا تھا کہ یہ معاہدے کے نکات سے روگردنی کے مترادف ہے اور اس سے افغانستا ن میں جنگ مزید طویل پکڑے گا۔ محمد طاہر خان کے مطابق امن معاہد ے میں موجودشرائط پر کچھ حد تک تو عمل دارآمد ہو چکا ہے۔ جب معاہدہ ہورہاتھا تو افغانستا ن میں تقریبا 13ہزار امریکن فوجی موجود تھے جوکہ موجودہ وقت میں اس کی تعداد ڈھائی ہزار تک بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان قیدیوں کے رہائی تو ہوئی لیکن اب بھی طالبان کے جانب سے کچھ شکایتیں موجود جن میں مزید ساڑھے سات ہزار قیدیوں کے رہائی، اب تک بلیک لسٹ سے طالب رہنماؤں کے ناموں کی موجودگی،مئی تک مکمل بیرونی افواج کا انخلاء اورافغان حکومت کے ساتھ کئی اہم مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا شامل ہیں۔

انیس رحمان کاکہنا ہے کہ کابل انتظامیہ امن کے لئے جاری تمام سرگرمیوں میں شریک ہوتا اور بینادی کوشش یہی ہے کہ افغانستا ن میں امن قائم ہوسکے اور جنگ کا خاتمہ ہوسکے لیکن بدقسمتی سے دونوں جانب بات چیت میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے دوحہ امن معاہدے کے مثبت اثرات سامنے نہ کی وجہ افغان عوام میں مایوسی دکھائی دے رہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ سب اہم مسئلہ میں ملک میں جنگ بندی کا ہے جس کے لئے طالبا ن تیا ر نہیں ہورہے اور دن بدن ملک میں پرتشدد واقعات رونماہوتے اور سب سے زیادہ نقصان عوا م کو ہی اُٹھنا پڑرہاہے۔ اُن کے بقول جنگ مسائل کا حل نہیں اور ماضی میں طاقت کے استعمال کی وجہ سے افغان عوام بھاری قیمت چکا نا پڑا اس وجہ سے دونوں جانب طویل جنگ کے خاتمے کے لئے اپنے موقف میں لچک پید ا کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد طاہر خان کاکہنا ہے کہ موجودہ وقت میں افغانستان میں قیام امن کے لئے جاری کوششیں ایک پیچید ہ اور مشکل مرحلے میں داخل ہوچکے لیکن اب بھی موقع ہے کہ افغان عوام کے بہتر مفادات میں افغان حکومت اور طالبا ن اپنے موقف میں نرمی پید اکریں۔ اُنہوں نے کہاکہ بات چیت کا عمل جاری رکھنا چاہئے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ پیچید ہ مسائل کے حوالے نئی تجاویز سامنے آئینگے اور اُس کے حل کے لئے نئے راستوں کی تلاش میں مدد فراہم ہوگی۔

ماسکو اور استبول کانفرس سے افغان عوام کے ملک میں قیام کے حوالے سے کافی اُمیدیں وابستہ ہے تاہم اب دیکھا جائیگا کہ کابل انتظامیہ اور طالبان ملک کے بہتر مستقبل کے حوالے سے اپنے موقف میں کیسے مثبت تبدیلی سامنے لائیگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top