سدھیر احمد آفریدی
معاشرے میں امن ہو، معاشرہ ترقی کریں اور معاشرے کے لوگ خوشحال زندگی گزار سکیں یہ کوئی ناممکن کام نہیں مگر ضروری ہے کہ ہم سب اپنے اندر وہ اوصاف اور خصوصیات پیدا کریں جن کی بدولت ہم اپنے معاشرے کو ہر لحاظ سے مثالی بنا سکے ہم پاکستانی اکثر سنتے آرہے ہیں کہ معاشرہ بگڑ چکا ہے، یہاں قانون کی بالادستی نہیں اور انصاف ناپید ہوتا جا رہا ہے اس لئے جنگل جیسے معاشرے میں انسانوں کا جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے قدرت نے ہمیں ایسا معاشرہ قسمت میں نہیں دیا ہے بلکہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے لئے مثالی معاشرے کے قیام میں ناکام ہو چکے ہیں.
خرابیاں تو بہت ساری ہیں لیکن زمام کار نیچے سے اوپر تک ہر ادارے میں جن افراد کے ہاتھوں میں دیتے ہیں وہ نااہل،بد دیانت اور غیر ذمہ دار ہیں منظم معاشرے کے قیام کے لئے قائدانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کے ہاتھوں میں ہر شعبے کی بھاگ ڈور دینی ہوگی اور اتحاد اور ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو اپنی بساط کے مطابق تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ اب تو ہمارا پاکستانی معاشرہ بگاڑ کی طرف چل پڑا ہے جہاں ہر طرف اخلاقی بحران غالب نظر آتا ہے پھر خدانخواستہ ریزے ریزے بھی ہو سکتا ہے مثال کے طور پر ہمارا نظام تعلیم بلکل ناقص،غیر معیاری اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اس لئے ترقی کے اس تیز ترین دور میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں.
موجودہ بد حال نظام تعلیم میں اگر استاد کا کردار دیکھیں تو بہت مایوس کن ہے معماران قوم کی اپنی مشکلات اپنی جگہ بجا ہیں کہ ان کے اوپر بوجھ زیادہ اور ان کی تنخواہیں اور مراعات مہنگائی اور گرانفروشی کے حساب سے بہت کم ہیں جس میں وہ اپنے گھر کا کیچن بمشکل چلا سکتے ہیں اور اگر کسی استاد کے گھر میں کوئی بیمار ہو تو پھر اس کا علاج تنخواہ میں کروانا جوئے شیر لانے والی بات ہے اتنی مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار اساتذہ خاک قوم اور معاشرے کی نئی نسل کی بہتر تربیت اور رہنمائی کر سکیں گے.
اس لئے تجویز یہ ہے کہ معماران قوم کی مشکلات اور پریشانیاں کم کی جائیں اور ہر قسم کے دباؤ سے ان کو آزاد کراکر معاشرے میں ان کی عزت بڑھانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائیں اور اس حوالے سے لوگوں میں شعور اور احساس کو جگانا ہوگا مگر دوسری طرف ہمارے اساتذہ بھی ماشاء اللہ ایسے ہیں جن کے بارے میں کسی نے درست کہا ہے کہ کہیں کچھ نہ ملا تو آکے استاد بنا مشاہدے کی بات ہے کہ اساتذہ کی اکثریت اناڑی ہے جن میں سے زیادہ تر یا تو اپنے مضامین پڑھا نہیں سکتے اور یا پھر سمجھا نہیں سکتے وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر خود قابل اور باصلاحیت نہیں ہوتے اور میرٹ سے ہٹ کر ان کی بھرتیاں کی گئی ہیں جس میں قصور وار وہ آفسران بھی ہیں جو ایسے اناڑی اساتذہ کو بھرتی کرکے معاشرے کے بناو سے زیادہ بگاڑ میں کردار ادا کرتے ہیں.
یہ بھی درست ہے کہ آج کے طلباء اسباق سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور موبائل فون میں گیمز کھیلنے اور دوسری غیر ضروری سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور اگر استاد کی طرف سے کبھی ان کو مار پڑتی ہے تو استاد کی یہ حرکت میڈیا کی زینت بن کر استاد کو بھگتنا پڑتا ہے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا اساتذہ معاشرے کے معززین، محنتی اور قابل ترین لوگ ہوا کرتے تھے۔
سکولوں کا نصاب مختصر، آسان فہم اور بستے ہلکا ہوا کرتے تھے اور طلباء اطاعت گزار،فرمانبردار اور محنتی ہوا کرتے تھے جو اپنے اساتذہ کی موجودگی میں معمولی بے ادبی کی جرآت نہیں کر سکتے تھے آج تو حال مختلف ہے جو ماہرین اور دانشور سکولوں کا نصاب تیار کرتے ہیں وہ بھی معاشرے کے مثبت اقدار اور روایات سے کچھ ہٹ کر ایسی چیزوں کو نصاب تعلیم کا حصہ بنا دیتے ہیں جن کی ہمیں سیکھنے اور سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم مختلف قسم کے رسم و رواج، بودوباش اور ثقافت کے حامل معاشرے میں رہ رہے ہیں.
اس لئے ایسا آسان فہم نصاب تعلیم تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کی بدولت ہماری نئی نسل اپنی تاریخ، مذہب، ثقافت، اقدار اور بلند پایہ اکابرین کی تاریخ اور کردار سے واقف ہوکر کچھ سبق حاصل کر سکےجس کو ہر لیول کے اساتذہ آسانی سے پڑھا اور سمجھا سکے اب تو بہت برا حال ہے مختلف پرائیوٹ سکولوں کا نصاب بھی ایکدوسرے سے مختلف اور سرکاری سکولوں کا نصاب ان سے مختلف ہے تو اس طرح کے مختلف نصاب قوم کے بچوں کو پڑھا اور سمجھا کر کس طرح ایک قوم بنائی جا سکے گی اس سے تو مختلف قسم کے طبقات وجود میں آئینگے جن کے خیالات اور زندگی گزار نے کے انداز بھی ایکدوسرے سے مختلف ہونگے تو پھر ہوگا یہ کہ معاشرے میں سوچ اور فکر کی بنیاد پر بھی ہم آہنگی نہیں ہوگی اور طبقاتی نظام تعلیم کی بدولت ٹھکراو کے نتیجے میں بگاڑ پیدا ہوگا.
بچوں کے سکول بیگز بچوں کے جسمانی وزن سے زیادہ بھاری ہوتے ہیں اور کتابیں اتنی زیادہ اور مشکل ہوتی ہیں جن کو صرف دیکھ کر بچے گھرانے لگتے ہیں اگر ان بچوں کو اساتذہ ہر مضمون میں سکول اور گھر کا کام دیتے ہیں تو بچے وہ کر نہیں سکتے اور اگر اساتذہ وہ کام چیک کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتے کام چیک کرتے ہیں تو کلاس کا وقت ہی ختم ہوتا ہے اور نصاب کو سلیبس کے مطابق پڑھانا اور ختم کرنا مشکل ہوتا ہے اور دوسری بات یہ کہ اتنے سارے مضامین کے کام چھوٹے بچوں سے لینے سے ان کو فرصت کا اتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ جس میں وہ کھیل کود کر کے جسمانی طور پر صحت مند رہ سکے.
قبائلی علاقوں کے اکثر پرائمری سکولوں میں دو یا تین اساتذہ ہوتے ہیں جبکہ کلاسز چھ ہوتی ہیں جن کو دو کمروں میں سنبھالنا پڑتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر کلاس کے لئے الگ کمرہ جماعت اور اس حساب سے اساتذہ ہوں اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں تو شعبہ تعلیم کے اوپر خصوصی توجہ دینی ہوگی اور طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی مشکلات اور پریشانیوں کو ختم کرنا ہوگا اور اساتذہ کی اپنی تربیت کرکے ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرینگے تو وہ نئی نسل کی بہترین تربیت اور رہنمائی کرکے قوم کو مختلف شعبوں میں اہم اور باصلاحیت افراد دے سکیں گے.
ہمارے ہاں تو کبھی اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا گیا کہ کونسا استاد کس لیول کی کونسی کلاس کو کونسا مضمون بہتر اور شوق سے پڑھا سکتا ہے تو پھر یہی ہوگا کہ اس فرسودہ نظام تعلیم کی بدولت معاشرے میں بناو نہیں بگاڑ پیدا ہوگا اور ایسے نظام تعلیم سے فارغ تحصیل افراد جن شعبوں میں جائیں گے وہاں بھی تباہی مچائیں گے جس کا حال ہم مختلف شعبہ جات کے اندر دیکھ رہے ہیں جہاں کوئی پلاننگ نہیں ہوتی ہے اور نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ تمام ادارے ڈیلیور کرنے کے قابل نہیں رہتے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ کرپشن کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے