تحریر: سدھیر احمد آفریدی
تنقید کے اصل مفہوم، مقصد، افادیت اور درست استعمال کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لئے ارسطو کی کتاب تنقید پڑھنے کی ضرورت ہے اور اس کتاب کو پڑھ کر ہر کسی کو سمجھ آئیگی کہ تنقید کے کیا لوازمات ہیں؟ کہاں اور کیسے کی جائے اور جن حضرات پر معاشرے میں،مخالفین یا لکھاریوں کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے وہ بھی اس پر ناراض نہیں ہونگے اور اگر وہ سمجھدار ہیں تو تنقید کے نتیجے میں اپنی اصلاح پر توجہ دینگے اور تنقید کا جائزہ لینگے کہ تنقید اچھی نیت اور اصلاح کی خاطر کی گئی ہے یا ذاتی عناد، بغض اور بدنیتی کی بنیاد پر کسی کی کمزوری کو پبلک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بحر حال دلوں کے راز اور بھید تو خدا ہی جانتا ہے میں محسوس کرتا رہا ہوں کہ ہمارے منتخب نمائندے اور سرکاری آفسران اکثر خوشامد گروں اور چاپلوسوں کے نرغے میں ہوتے ہیں اور یہ مخصوص خود غرض افراد کا ٹولہ جن منتخب نمائندوں اور افسران کے گرد جمع ہوتا ہے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ منتخب نمائندوں اور افسران کے گرد سیسہ پلائی دیوار بن جائیں تاکہ معاشرے کے عام مجبور اور باصلاحیت لوگوں کو انکے قریب ہونے کا موقع نہ مل سکے۔
ان خوشامد گروں کی کوشش ہوتی ہے کہ منتخب افراد جو کہ بہت زیادہ سرمایہ دار بھی ہوتے ہیں وہ کبھی اصلاح کی کوشش کرنے والے افراد کو منتخب نمائندوں کے ساتھ قریب ہو کر گفتگو کرنے کا موقع نہیں دیتے ہیں اور خود غرض افراد اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر باصلاحیت افراد نے منتخب نمائندوں یا سرکاری افسران کو اپنی گفتگو اور دلائل کے ذریعے قائل کر دیا تو پھر خوشامد گرد چاپلوسوں کی چھٹی ہوگی اور اس طرح ان کا رزق خطرے میں پڑ جائیگا۔
ہمارے قبائلی علاقوں سے منتخب نمائندوں میں ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز شامل ہیں اور یہ خود بھی اتنے جاہ پسند، مغرور اور دولت کے نشے میں مست ہیں کہ کبھی کسی کی تنقید کو خندا پیشانی سے تسلیم نہیں کرتے ہیں اور اس بات کو اپنی ہتک اور توہین سمجھتے ہیں کہ کسی نے کیونکر ان کو آئینے میں اپنا چہرا دکھا دیا ہے حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے قبائلی منتخب افراد قیادت کے اہل نہیں لیکن کیا کریں کہ اس ملک کا یہ برا حال ہے کہ ہر جگہ سے قوم کے اوپر جاہل، اناڑی اور دولت بڑھانے اور اس کا تحفظ کرنے والے لوگ مسلط ہیں چاہے وہ منتخب ہوں یا پھر سرکاری افسران ہوں جو اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
ہمارے قبائلی منتخب نمائندے اور افسران اتنے حاسد،کینہ پرور اور بغض رکھنے والے ہیں کہ اگر ان پر معاشرے کے کسی فرد یا صحافی کی طرف سے نیک نیتی اور اصلاح کی بنیاد پر بھی تنقید ہو جائے تو پھر سالہا سال تک معترضین اور تنقید کرنے والوں کو معاف نہیں کرتے اور جہاں اور جیسے بھی ان کا بس چلے تنقید کرنے والے افراد اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں اور ان کی کمزوریوں کو تلاش کرکے سزا دیتے ہیں جس سے ان کی پست ذہنیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
ضلع خیبر میں بالخصوص اور بالعموم تمام قبائلی علاقوں سے منتخب نمائندے اور ذمہ دار سرکاری آفسران قبائلی صحافیوں کی اکثریت سے نفرت کرتے ہیں اور خاص کر وہ صحافی ان کے بغض اور کینے کے نشانے پر ہوتے ہیں جو ان کے گیت نہیں گاتے اور جائز تنقید کرتے ہیں ہمارے بعض نمائندے اور افسران تنقید کرنے والے قلم کاروں کے فون کالز اور ٹیکسٹ پیغامات کے جوابات دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر قبائلی صحافیوں نے گزشتہ بیس سالوں میں جن نامساعد حالات میں ملک و قوم کی بہتر تصویر پیش کی ہے اور ریاست کی پالیسیوں کو سمجھ کر دائرے کے اندر رہ کر معاشرے کی خدمت کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں لیکن ہمارے افسران اور منتخب نمائندوں کو اس چیز کا کوئی ادراک نہیں کہ وہ اپنے معاشروں کے اندر خیر خواہ اور بد خواہ افراد میں فرق کر سکے جن میں معاشرے کے مختلف طبقات سے وابسطہ افراد شامل ہیں۔
چاپلوسی کرنے والے منافق ابن الوقت ہوتے ہیں جن کے پیش نظر اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں اور ان افسران اور منتخب افراد کی یہ بڑی کمزوری ہے کہ وہ خوشامد گروں کے نرغے میں خوش اور مطمئن رہتے ہیں جن کی وجہ سے ان کی آنکھوں پر پٹیاں لگی رہتی ہیں بحر حال ہم تو اس اصول پر قائم ہیں کہ
خودی کو نہ بیچ،
غریبی میں نام پیدا کر