سدھیر احمد آفریدی
حکومت نے کورونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت کے پیش نظر ملک بھر کے تعلیمی ادارے 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کے احکامات پہلے جاری کر دئے ہیں، تاہم بعد میں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کو دیکھتے ہوئے خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ تعلیمی ادارے بند نہیں کئے جائیں گے تاہم طلباء نہیں آئینگے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہفتے میں طلباء صرف گھر کا کام چیک کروانے اور نیا کام لینے کے لئے اساتذہ کے پاس آئیں گے اور اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جہاں آن لائن کلاسز اورنیٹ سروس موجود نہیں وہاں ایسا کیا جائیگا.
قبائلی طلباء نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کی وجہ سے ان کا قیمتی وقت چھ ماہ سے زیادہ متاثر رہا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ حکومت قبائلی علاقوں میں تھری جی اور فور جی نیٹ سروس بحال کرنا نہیں چاہتی
انہوں نے کہا کہ اگر قبائلی اضلاع میں نیٹ کی سہولت موجود ہوتی تو طلباء کے لئے آن لائن کلاسسز سے مستفید ہونا مشکل نہ ہوتا لیکن حکومت قبائلی علاقوں میں تعلیمی کی روشنی عام کرنا نہیں چاہتی اور قبائلی علاقوں میں جہالت کے اندھیرے گہرے کرنا چاہتی ہیں جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے
لنڈی کوتل میں کچھ طلباء نے کہا کہ پہاڑی علاقوں میں سردی بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جس میں سکولوں کی سیمنٹ سے بنے فرش پر چھوٹے معصوم بچوں کو بیٹھانا کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے.
انہوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلی علاقوں میں طلباء کو آن لائن کلاسز کے ذریعے گھروں کے اندر پڑھایا جائے اور اس کے لئے فوری طور پر تمام انتظامات کرنا چاہئے تاکہ بچوں کے اوپر کورونا اور شدید سردی کا کوئی برا اثر نہ پڑے۔
ظلباء نے یہ بھی کہا کہ مرکزی اور صوبائی حکومت قبائلی عوام کے ساتھ ہر حوالے سے ناانصافی کر رہی ہیں اور قبائل کے مسائل کو حل کرنا نہیں چاہتی.