پختونخوا:زیر آب زمینوں میں زرعی پیداوار کا حصول کیسے ممکن ہے؟

9ef92d3d-df5b-455a-bb73-42147494524e-e1605545606600.jpg

اسلام گل آفریدی

پچاس سالہ بخت منیر کے زمین پر کاشت کی گئی فصل کی کٹائی شروع ہوچکی ہے۔ اُن کے زیر کاشت زمینوں پر صرف ایسا فصل کاشت کیاجاتاہے جس کو پانی سے سیراب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتا البتہ پوری سال اُس میں پانی کھڑا رہتا ہے۔رواں سال خراب موسم کے بناء پر اُن کو کم آمدن کی توقع ہے لیکن اُن کا کہنا ہے کہ بیس ایکڑ زمین پر وہ صرف برسنڈی سبزی ہی کاشت کرتے ہیں کیونکہ اس میں دوسرا کوئی فصل یاسبزی نہیں اُگایا جا سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں زرعی لحاظ سے انتہائی اہم ضلع چارسدہ میں دریا جندی اور شوگر و پیپر مل کے بیچ واقع زمینوں میں سالہا سال پانی کھڑا رہتا ہے جس کے وجہ سے مقامی کاشتکاروں کے آمدن کا واحد کا ذریعہ بر سنڈی فصل کی پیدوار ہی ہے۔مقامی کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ مختلف مسائل کے بناء پر دونوں ملز 1990میں بند کردئے گئے جس کے وجہ سے نہ صرف دوہزار سے زیادہ ملازمین بے روزگار ہوگئے بلکہ اردگرد کے کئی کلومیٹر تک زیر کاشت زمینوں میں چشموں کے شکل میں پانی کے مقدار میں اضافہ ہوا اور کئی سالوں تک ہزاروں ایکڑ زمین بنجر رہی۔

امجد علی مقامی کاشتکار ہے اور ان کے بھی تمام زمین زیر اب ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ملز میں پانی کی بڑی مقدار میں استعمال ہوتاتھا جس کے لئے بڑے بڑے پمپ لگائے تھے جو زمین سے دس سے پندرہ انچ پانی کھنچ لیتے تھے جس کے وجہ سے قریب علاقوں کے زیر زمین پانی کے مقدار کم رہتاتھا او ر لوگ اپنے زمینوں میں گندم، جوار، گنااورمختلف سبزجات کاشت کرتے تھے لیکن ملز کے بند ہونے کے بعد زیر زمین پانی کے مقدار میں اضافہ ہوا اب یہاں پر پندرہ سو سے دوہزار ایکٹر زمین صرف برسنڈی ہی اُگایا جاتا ہے۔علاقے میں فصل کی کٹائی جاری ہے اوربڑی تعدادمیں مزدر اس کو نکالنے میں مصروف ہے لیکن یہ کافی مشکل کام ہے۔

روح اللہ سال میں چھ مہینے برسنڈیو کو نکل کر دیہاڑی کماتا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ صبح آٹھ سے دوبجے تک کام کرکے پانچ سوروپے دیہاڑی ملتاہے جس پر بمشکل گھر کی ضروریات پوری ہوتی ہے۔اُن کاکہناہے کہ برسنڈی زمین میں دو سے چار فٹ کے گہرائی پر ہوتا ہے جبکہ اوپرکیچڑ اور پانی کو ہٹا کر نکالاجاتاہے،سردی کے موسم میں  ٹھنڈ اور مناسب آلات نہ ہونے کے وجہ سے کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دن میں ایک مزدور دس سے پندرہ کلو بر سنڈی نکالتا ہے اورکاشتکارمخصوص پیوپاروں کو 25سوروپے چالیس کلو خریدفروخت کرلیتے ہیں۔

واجد علی پچھلے دس سالوں سے گھنٹہ گھر پشاور میں سبزی فروش ہے۔ اُن کاکہناہے کہ برسنڈی واحد سبزی ہے جو منڈی کے بجائے پیوپاری دوکاندار کو فروخت کرتے ہیں اور یا کچھ کاشتکار پیپل منڈی،صدر، گھنٹہ گھر، فرودس سبزی منڈی، پشاور کے میں سبزی فروش ہے۔اُنہوں کہاکہ برسنڈی کے خریداری کے بعد اُس میں چھوٹے اور بڑوں کو الگ کردیاجاتاہے،بڑے سائز دو سو جبکہ چھوٹے سائز والے 150روپے میں فروخت کیاجاتاہے۔اُنہوں نے کہا کہ پنڈی یا دوسرے عام سبزی کی طرح برسنڈی کو پکایا جاتاہے اور بعض لوگ اس کو پکوڑے بنانے میں استعمال کرتے لیکن اس کے مخصوص خریدار ہے۔

محکمہ زراعت خیبرپختوا کے مطابق صوبے بھر اور ضم قبائلی اضلاع میں 13لاکھ18ہزار ایکڑ زمین گندی و زہریلی پانی،گھاس،سیلاب اور دیگر وجوہات کے بناء پر بنجر ہوچکی ہے۔ادارے کے مطابق سال 20-19 20میں 19ہزار ایکڑ زمین کو دوبارہ زیر استعمال لایا گیا ہے جن میں 80ایکڑ زمین پر جنگلات،14ہزار2سو ہیکٹرززمین پر دوبارہ کاشت کیاگیا جبکہ 4 ہزار چھ سو ہیکٹرز کو دوبارہ کاشت کے قابل بنایا گیا لیکن اُس پر فصل یا جنگلات نہیں لگایا گیا ہے۔مکمل پانی میں گرے ہوئے زمین کا رقبہ اور اُس کے پیدوار کے حوالے سے ادارے کے پاس کوئی اعداد شمار موجود نہیں تھا۔

بخت منیر نے گاؤں سے بے روزگاری کے خاتمے کے لئے بیس سال پہلے زرعی ماہرین کے مشورے پر پنجاب کے ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ سے برسنڈی بیج لا کر زمینوں میں کاشت کیا اور اسطرح دوسرے کاشتکاروں نے بھی اس پر عمل کرکے ہزاروں ایکڑز بنجرزمین کو دوبارہ آباد کردیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ موسم بہار میں برسنڈی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے زمین میں دوفٹ کے گہرائی پر لگا دیاجاتاہے اور جب فصل تیار ہونے کے بعد مزدور بڑے سائز کے برسنڈے نکالتے وقت ساتھ چھوٹے سائز کے بھی ہوتے ہیں جو اصل میں بیج ہوتا ہے ساتھ ساتھ کاشت  کرلیتا ہے اور آنے والے سال دوبارہ وہ پیدوار دیتا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ برسنڈی کو کھیت میں صرف ایک دفعہ کاشت کرنا ہوتا ہے اور آنے والے سال کے لئے خود بخود بیج نکل آتا ہے۔

برسنڈی کے نکالنے کے بعد مزدور کھیت کو جڑی بوٹیوں سے صاف کرکے گوٹ وغیرہ کرکے کئی مہینے کام کرتے ہیں جس کیلئے زمین کے مالک کافی خرچہ برداشت کرلیتاہے۔فصل میں بہار کو خاص قسم کے پھول نکل آتے ہیں جو پک کر اُس کو نیلم بھی کہا جاتا ہے کہ علاقے کے غریب لوگ توڑ کر بازار میں پندرہ سے بیس روپے تک ایک بھیج دیتا ہے اور لوگ اُس کو کھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

کھانے کے لئے برسنڈی کے نکلنے کا عمل جون میں شروع ہوتاہے اور یہ اپریل تک جاری رہتاہے۔ امجد علی نے کہا کہ دوسرے فصلوں کے مقابلے مزکورہ فصلوں کے نسبت زیادہ نازک ہوتا ہے کیونکہ بیماریوں، کیڑوں اور شدید آندھی سے فصل کو نقصان پہنچتاہے کیونکہ اس کا پودا کمزور اور پتے بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ 2010میں سیلاب نے تیار فصل کو تباہ کرکے دوسال کے لئے زمین بنجر کردیا اور اُس کے بعد فصل کے بیمارویوں میں کافی اضافہ ہوچکا ہے اورہر سال کاشتکار فصل کوکیڑے مار ادویات پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں۔

مقامی شتکار اپنے فصل کو بچانے کے لئے روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جب فصل میں بیماری ظاہر ہوجاتی تو پودے یا پتے زرعی ادویات کے دوکان لیکر جاتے ہیں اور اُس کے مطابق وہاں سے دوائی لائی جاتی ہے۔ کاشتکاروں کے مطابق رواں سال طویل خشک سالی اور آندھیوں کی وجہ سے فصل کو کافی نقصان پہنچا ہے جس کے وجہ سے پیداوار بری طرح متاثرہو چکا ہے۔ ضلعی یا صوبائی سطح پر محکمہ زراعت کے جانب سے اُن کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوتا اور اُن کو مشورے دینے کے لئے کوئی علاقہ کا دورہ  بھی نہیں کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ اور دیگر علاقوں میں محدود پیمانے پر ایسے زمینیں  موجود ہے جو سالہا سال پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے اُس پر کوئی فصل کاشت نہیں کیاجاتا۔

بخت منیر کا کہنا ہے کہ اگر علاقے میں کوئی ایسا منصوبہ حکومتی سطح پر کرائی جائے کہ جس کے مدد سے زیر زمین پانی کی مقدار کم ہوجائے تو ممکن ہے کہ یہاں پر بھی علاقے کے دیگر اور آمدن والے فصل کاشت کیں جاسکتے ہیں۔
پچھلے سالوں کے سیلابی ریلوں نے اگر ایک طرف ضلع چارسدہ کے زرعی زمنیوں کو بہت زیادہ متاثر کیا تو دوسرے بعض علاقوں میں دریا کے کنارے واقع نشیبی زمینوں میں ریت کے بڑے مقدار لاکر دوبارہ کاشت کا قابل بناچکے ہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top