اسلام گل آفریدی
اجمیر خان ضلع خیبر کے دورافتادہ علاقے وادی تیراہ کا رہنے والاہے اور 2016میں اُن کے مسمار شدہ گھر کے سروے ہوا تھا لیکن اب تک اُن کو چیک نہیں ملا،جس کے لئے اُنہوں نے مختلف اداروں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کافی کوششیں کی لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔اُنہوں نے کہا کہ علاقے میں شدت پسندوں کے سرگرمیوں میں اضافے کے بعد اُن کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوئی تو پورا علاقہ خالی ہو ا اور لوگ نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں میں عارضی طور پر رہائش پزیر ہوئے۔اُن کے بقول کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ پوری گاؤں میں مکانات کو جلا کر تباہ کردئیے گئے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ کئی سال انتہائی تنگدستی کے باوجود کرایہ کے گھر میں گزاری لیکن اب مجبورا ًتباہ شدہ مکان میں رہائش پزیر ہے۔
ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ قبائلی اضلاع کے اُن علاقوں میں شمار کیاجاتا ہے جو دہشت گردی کے لہر میں سب زیادہ متاثرہ ہوا ہے۔ اسی اثنا بڑی تعداد میں مکانات، سکول، صحت کے مراکز مسمار ہوئے اس کے علاوہ نہ صرف علاقے کا بلکہ صوبے کے ایک بڑے تجارتی مرکز باڑہ بازار کو چھ سال کے لئے مکمل طور پر بند رکھنے کے وجہ سے بڑی تعداد میں دوکانیں مسمار ہوچکے تھے۔
کئی سال نقل مکانی کے زندگی گزرنے کے بعد جب لوگ اپنے گھروں کو لوٹے تو سب سے بڑا مسئلہ سرچھپانے کے لئے گھروں کے دوبارہ تعمیر اور مرمت تھا۔حکومت جانب سے تباہ شدہ مکانات کے سروے شروع کردی گئی جس کے تحت مکمل مسمار شدہ مکان کے چار لاکھ جبکہ جزوی نقصان پہنچے والے گھر کے مالک کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار دینے کاعمل شروع ہوا لیکن اس عمل میں کافی مسائل سامنے کے بعد چند مہینے پہلے علاقے کے لوگوں کی جانب سے ’آفریدی ریلیف کمیٹی‘ بنائی گئی جن میں علاقے کے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے۔
کمیٹی کے سربراہ اور سیاسی رہنما ء محمد معروف آفریدی نے کہاکہ ریلیف کمیٹی بنانے کابنیادی مقصد تباہ شدہ مکانات کے لئے کی جانے والے سروے کے عمل کو شفاف بنانا او ر اُس میں حائل روکاٹوں کو دور کرکے جلداز جلد متاثرین کو اُن کے نقصانات کے ازالے چیک دلانے تھے۔
اُنہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 2016سے 2020تک کئے گئے سروے میں 4783 ایسے درخواستو ں پر کام شروع کردیا گیا جن میں معمولی غلطی کے بناء پر متاثرین کے چیک جاری کرنے کے عمل کو روک دیاگیا تھا اب تک 3700کو درست کردیاگیا ہے جبکہ باقی ایک ہزار میں 112درخواستوں کو کینسل کردیاگیا ہے جبکہ ہماری کوشش ہے کہ متعلقہ لوگوں تک پہنچ جائے لیکن رسائی نہیں ہوپارہی ہے۔
سابق قبائلی علاقوں کے قدرتی آفتوں سے نمٹنے کے ادارے یا ایف ڈی ایم اے کے اعدادو شمارکے مطابق ایک سے زیادہ خاندان ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے تھے جبکہ مختلف مسائل کے بناء پر ہزاروں خاندان رجسٹریشن سے محروم ہوگئے تھے۔خیبر پختونخوا کے صوبائی وزرات ریلیف کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق دہشت گردی سے جنوبی وزیرستان میں 24ہزار 983،شمالی وزیر ستان 14ہزار345،اورکزئی 10ہزار272، کرم 5ہزار489اور خیبر میں 5ہزار 694مکانا ت کے سروے مکمل کرکے مالکان کو 39ارب85 کروڑ روپے کے چیک تقسیم کردئیے گئے ہیں۔ مذکورہ رقم میں میں اب تک ضلع خیبر کے متاثرین میں 2ارب 60کروڑ روپے تقسیم کیا جاچکا ہے۔
باڑہ کے مختلف علاقوں میں مقامی آبادی کے بار بار مطالبوں کے بعد مختلف علاقوں میں تقریباً دس ٹیمیں سروے میں مصروف ہے جن میں ایک سرکاری سکول کے اُستاد، ضلعی انتظامیہ اور سیکورٹی کا ایک اعلیٰ عہدیدار اس میں شامل ہوتا ہے۔ سروے ٹیم کے ایک ممبر نے نام نہ ظاہر کرنے شرط پر بتایا کہ پچھلے تین ہفتو ں سے وہ قوم شلوبر کے سروے میں مصروف ہے اور بمشکل دس سے بارہ گھر وں کے سروے کیا جاتا ہے جوکہ انتہائی کم تعداد ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ سیاسی اور دوسرے سرکاری اداروں کے مداخلت کے بناء پر سروے ٹیم کا کام متاثرہورہاہے۔
معروف آفرید ی کا کہنا ہے کہ جاری سروے میں بہت زیادہ شکایات ریلیف کمیٹی کو موصول ہورہے ہیں جن میں بڑا مسئلہ عوامی نمائندوں کے جانب سے سیاسی مداخلت ہے جس کو دور کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کیاجائیگا تاکہ کام کے رفتار کو تیز کیاجاسکے۔اُنہوں نے کہا کہ ٹیم ایک دن ایک جگہ پر کام شروع کردیتاہے اور وہاں پر اپنے لوگو ں کے نام درج کرکے دور دوسرے علاقے میں بغیرکسی وجہ بتائے چلے جاتے ہیں جس کے وجہ سے بڑی تعداد میں مقامی متاثرہ لوگ اندارج سے رہ جاتے ہیں۔
آفریدی قبیلے کے ذیلی شاخ اکاخیل کے دورافتاد ہ علاقوں میں مقامی آباد ی کے مطابق چار سال پہلے واپس اپنے علاقے میں آچکے ہیں لیکن تاحال علاقے میں تباہ شدہ مکانات کے سروی شروع نہ ہوسکی۔
جاوید علی کے گھر کو مقامی شدت پسندوں نے زبردستی قبضہ کرکے جیل کے طور پر استعمال کرتا رہا جس کو بعد میں سیکورٹی حکام نے مسمارکردیا۔اُنہوں نے کہاکہ خاندان کے ساتھ شریک گھر اور حجرے کے تعمیر پر تین کروڑسے زیادہ خرچہ ہوا تھا لیکن سروے ٹیم نے صرف دوبندو ں کے نام لیکر آٹھ لاکھ روپے دئیے۔
ریلیف کمیٹی کے مطابق تازہ اعداد شمار کے مطابق مزید تین ہزار سے زیادہ سروے فارم تحصیل باڑہ کے مختلف علاقو ں سے آچکے ہیں جن پر کام تیزکرنے لئے لائحہ عمل طے کیاجارہاہے کیونکہ اگرجون تک لوگوں کو رقم کی ادائیگی نہیں ہوئی تو فنڈ ضائع ہوجائیگا۔کمیٹی کے مطابق کوشش ہوگی کہ جنوری2021تک تمام متاثرین کو چیک جاری کردیا جائے لیکن اس کے باوجود بھی اس حصے میں پیش رفت نہیں ہوتا تو پھر احتجاج اور عدالت کا راستہ اختیار کیاجائیگا۔
چند دن پہلے ضلع مہمند میں صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان کے دورے کے موقع پر جرگہ میں ہال میں عوامی مسائل حل کے حوالے تقریب کا انعقاد کیا جس میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسمار شدہ مکانات کے معاوضے جاری نہ کرنے کی شکایت سامنے آئی۔
صحافی اور وکیل فخرعالم مہمند وزیر قانون کو بتایاکہ نومہینے پہلے بھی جب آپ مہمند کے دورے پر آئے تھے تو مسمار شدہ مکانات کے معاوضوں ادئیگی کا مسئلہ اُٹھایا تھا اور آج آپ نے تقریر میں کہا کہ اسی فیصد مسئلہ حل ہوچکاہے لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ صرف گھروں کے کرائے کا مسئلہ کچھ حد حل ہوچکا ہے جو سیکورٹی فورسز کے زیر استعمال تھے۔ جواب میں وزیر قانون نے کہاکہ اس حوالے جلد اقدمات اُٹھا کر یہ عوامی مسئلہ حل کردئینگے۔