پولیو ڈپلومیسی !!!

polio.jpg

سدھیر احمد آفریدی

گزشتہ روز پولیو وائرس کے تدارک کا عالمی دن منایا گیا بہت اچھی بات ہے کہ دنیا کے انسانوں بالخصوص پسماندہ ممالک کے عوام کو پولیو وائرس سمیت دیگر بیماریوں سے آگاہی دی جائے اور ان بیماریوں کے خاتمے، کم کرنے یا ان بیماریوں میں مبتلا انسانوں کا علاج کروانے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں اس حوالے سے پاک افغان طورخم بارڈر پر بھی ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں پاکستان کی طرف سے صوبہ خیبر پختون خواہ کے گورنر شاہ فرمان اور افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے گورنر ضیاءالحق امیر خیل نے خصوصی طور پر شرکت کی۔

پولیو کے عالمی دن کے حوالے سے اس تقریب پر قلم کشائی سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس تقریب کے منتظمین یعنی سول انتظامیہ ضلع خیبر کے ذمہ داران پر کُچھ بات کی جائے جنہوں نے صحافیوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے بعض لکھاری صحافیوں،بااثر اور علاقے میں اچھی شناخت والے صحافیوں اور قومی مشران کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کے نام لسٹ سے نکال دئیے اور بعض ایسے نام نہاد صحافیوں کو بھی اس تقریب کی کوریج کرنے کی دعوت دی جو اپنے نام بھی نہیں لکھ سکتے۔

اس واقعے میں اگر محکمہ صحت کے حکام ملوث ہیں تو وہ بھی قابل گرفت ہیں چونکہ پولیو وائرس کے حوالے سے اس تقریب کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے عام لوگ پولیو وائرس سے آگاہی حاصل کرکے اپنے ننھے منھے بچوں کو اس موذی بیماری سے بچائیں تاکہ وہ پوری زندگی اپاہج ہونے سے محفوظ ہو سکے اور آگر پولیو جیسی بیماری کے خاتمے کو بھی ہم متنازعہ بنائیں گے اور اس کے تدارک کے لئے کردار ادا کرنے والوں میں بھی پسند و ناپسند کو ترجیح بنائیں تو پھر ایسے متعلقین اور ذمہ داران کی نیتوں پر شک کرنا کوئی غلطی نہیں ہوگی۔

میرے خیال میں پاک افغان طورخم سرحد پر منعقد ہونے والے اس پروگرام کی بہت بڑی سطح پر تشہیر کرنے کی ضرورت تھی جس میں مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا اور نکمے لوگ ہی اس طرح ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں کہیں بھی بین الاقوامی سرحدات پر اس طرح کے پروگرامات کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے پس منظر میں اور بھی بہت کچھ پوشیدہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر طورخم بارڈر پر پولیو کے عالمی دن کے تناظر میں منعقد ہونے والی اس تقریب سے خطاب کے دوران افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے گورنر ضیاءالحق امیر خیل نے اگر ایک طرف پولیو وائرس کے خاتمے کے حوالے سے مشترکہ کوششیں کرنے پر زور دیا تو انہوں نے اسی پروگرام کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ باہم روابط، اچھے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات اور دونوں ممالک کے مابین کاروبار اور تجارت کو وسعت دینا بھی دونوں ممالک کے فائدے میں ہیں اور یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ افغانستان میں پھنسے ہزاروں پاکستانی خالی گاڑیوں کا پہیہ چلتا کرنے کے لئے وہ اقدامات کرینگے اور انہوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ باہم مسائل اور ان کے حل کے لئے گفت و شنید، بحث مباحثے اور مل بیٹھنے سے بڑے بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے خیبر پختون خواہ کے گورنر شاہ فرمان نے بہت پتے کی بات کی کہ جس طرح پولیو بیماری دونوں ہمسایہ برادر ممالک میں موجود ہے اور مشترک ہے اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں دونوں ممالک کے مابین مشترک ہیں اور یہ درست کہا کہ جس طرح پولیو کی بیماری سے نمٹنے کے لئے دونوں ممالک ایک پیج پر ہیں اسی طرح اگر دیگر مسائل پر بھی دونوں ممالک ایک پیج پر آجائیں تو دیرپا اور اچھے نتائج دے سکتے ہیں جس میں دونوں کی بھلائی اور خوشحالی ہوگی۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں خطرات اور مشکلات ہوتے ہیں وہاں کافی سارے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں اور بیدار اور ذمہ دار قومیں ایسے مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں یہی مثال کافی ہوگی کہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے مابین کچھ عرصے سے بداعتمادی پائی جاتی ہے جس میں کچھ بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں تو اگر پولیو مہم جاری رکھنے یا اس بیماری کے تدارک کے لئے دونوں ممالک ایک پیج پر آسکتے ہیں تو اسی طرح دیگر مسائل پر بھی ملکر قابو پایا جا سکتا ہے۔

طورخم بارڈر پر تو پروگرام پولیو کے عالمی دن کے حوالے سے تھا لیکن سائیڈ لائن پر دونوں ممالک کے صوبائی گورنروں نے مبینہ طور پر جس خوشگوار ماحول میں دیگر ایشوز جیسے کاروبار اور تجارت کو بڑھانے پر گفتگو کی اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے اور یہی طریقہ مناسب سمجھا جاتا ہے کہ ایک تیر سے کئی شکار کئے جائیں اور میں داد دیتا ہوں ضلع خیبر اور لنڈیکوتل کی ضلعی انتظامیہ کو جنہوں نے ایسے موقع سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض صحافیوں اور لکھاریوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا۔

جو صحافی حضرات ان کی ہاں میں ہاں ملاکر ان کی چاپلوسی نہیں کرتے اور انشاءاللہ آئندہ بھی باضمیر قومی مشران، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور قلم چلانے کا گر جاننے والے باخبر اور سنجیدہ صحافی کرپٹ اور نااہل انتظامی آفسران کے حق میں نہیں لکھیں گے جن کو ہم اپنے علاقے اور عوام کے لئے ناسور سمجھتے ہیں صحافیوں میں پھوٹ ڈالنے والے اور پسند و ناپسند کے اس غیر سنجیدہ روئے میں لنڈی کوتل پریس کلب کے نام نہاد اور اناڑی صدر بھی برابر شریک تھے۔

انہی سطور کے ذریعے محکمہ صحت اور پولیو کے خاتمے کے لئے بھرتی کئے گئے بڑے عہدوں پر فائر آفسران کو بھی مشورہ دینگے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے پولیو مہمات کی کامیابی پر توجہ مرکوز رکھیں اور پولیو سمیت دیگر بیماریوں سے ضم اضلاع کے عوام کو بڑے پیمانے پر آگاہ کرنے کے لئے موثر اقدامات کریں اور اگر ان کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جہاں کوئی آسامی خالی ہوں تو اس پر اپنے کسی رشتہ دار یا چہیتے کو بھرتی کرائیں گے تو اس سے کچھ وقت کے لیے ان کی روزی روٹی کا چکر تو چلتا رہیگا لیکن اس سے پولیو کی مہمات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے اور اس طرح پولیو وائرس کے خاتمے کے لئے کی جانی والی کاوشوں پر پانی پھیر جائیگا اور نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی بات ہوگی۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف پولیو بلکہ تمام اداروں میں جہاں کہیں خالی آسامیوں پر بھرتیاں کروانا مقصود ہوں تو اس میں متعلقہ محکموں کے سربراہان اور منتخب نمائندوں کی سفارشات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ کو اصول بنانا چاہئے اور مقامی افراد کو بھرتی کیا جانا چاہئے تاکہ غربت اور بے روزگاری کو کم کیا جا سکے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو سکے میرے اندازے کے مطابق پولیو خاتمے کے لئے جس بڑی سطح پر اور مقامی بنیادوں پر آگاہی پروگرامات کرنے کی ضرورت ہے اس میں ذمہ دار لوگ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور یہ بھی درست نہیں کہ حکومت اور محکمہ صحت محض پولیو کو موذی مرض سمجھتے ہوئے باقی سنگین نوعیت کی بیماریوں کو یکسر نظر انداز کرتے چلے جائیں اور یہی ایک چیز بھی پولیو مہمات پر اثرانداز ہوتی ہے۔

حکام کو صحت کی اس موذی مرض کے متعلق  ایک سروے کرنے کی ضرورت ہے کہ قبائلی اضلاع میں کتنے بچے سال میں پولیو سے اپاہج ہوتے ہیں اور کتنے لوگ دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں پولیو تو کسی کی جان نہیں لیتا کسی بچے کو معذور کراکے عمر بھر کے لئے گھر اور معاشرے پر بوجھ بنا دیتے ہیں لیکن دیگر جاں لیوا بیماریاں تو پھلک جھپکتے ہی کسی گھر کے چشم و چراغ کو بجھا دیتے ہیں اس لئے پولیو کے ساتھ ساتھ دیگر بیماریوں کے خلاف بھی جہاد کرنے کی ضرورت ہے اور جو مجبور لوگ غربت کی وجہ سے اپنا علاج نہیں کرواسکتے ان کی مدد کرنے اور مفت علاج کا بندوبست کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔

پولیو ڈپلومیسی کی آڑ میں گزارش کرونگا کہ افغانستان کے مجبور مریضوں کو جتنی بھی سہولت دی جا سکتی ہے دینی چاہیے تاکہ وہ پاکستان کے ہسپتالوں میں اپنا علاج کرواسکیں اور اسی طرح جو افغان باشندے ادھر پاکستان میں انتقال کر جاتے ہیں ان کی میتوں کو طورخم بارڈر پر نہیں رکوانا چاہئے تاکہ افغان باشندے اپنے مرحومین رشتہ داروں کی میتوں کو بروقت تدفین کے لئے اپنے ملک لے جا سکے اور اس حوالے سے سفارتخانے کی طرف سے کسی خط کی وصولی کی پالیسی کو ترک کر دینا چاہئے تاکہ ہم افغانوں کی دل آزاری سے بچ سکے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top