اسلام گل آفریدی
سورج کے کم روشنی او ر موسم کے تبدیلی کے ساتھ سردی کا احساس ہوتا ہے لیکن آج کا د ن عبدالخالق جیسے کئی دوکانداروں کے لئے کمائی کے لئے لحاظ سے گرم ہے۔ اس ایک دن کے کمائی پر وہ پورا ہفتہ اپنے خاندان کے ضروریات پورا کرتاہے۔چاروں طرف سے پہاڑوں میں گیرا ہوا یہ تجارتی مرکزضلع خیبر کے دورافتادہ پسماندہ علاقہ ’درس جماعت‘ ہے جوکہ ضلع اورکزئی کے سرحد پر واقع ہے۔
2014 میں علاقے میں دہشت گردی کے خلاف خیبر ٹو آپریشن کے نتیجے میں پوراعلاقہ خالی کرلیاگیا تھا۔ کئی سال بعد مقامی سیکورٹی حکام نے علاقے کو کلیئر قرار دیکر مقامی آباد ی کے واپسی کاعمل شروع ہوا لیکن علاقے موجود بنیادی ضروریا ت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔
عبدالخالق آفریدی نے دو سال پہلے دوبارہ اپنے علاقے میں قائم تجارتی مرکز میں دوبارہ کاروبار شروع کردیا ہے لیکن سرمایہ نہ ہونے اور علاقے کے عوا م کی مالی حالت خراب ہونے کے وجہ سے کاروبار نے اتنی زیادہ ترقی نہیں کی جتنا ہونا چاہیے تھی۔ اُنہوں نے کہاکہ درس بازار میں دو سو تک دوکانیں تھیں لیکن نقل مکانی کے بعد جب ہم واپس اپنے علاقے میں آئے تو ایک دوکان بھی سلامت نہیں تھااور ہاتھ کے شارے پر بتایا کہ یہ سارے دوکانیں تھے۔
موجودہ وقت میں پندرہ تک دوکانیں دوبارہ تعمیر ہوچکے ہیں۔ مقامی تاجروں کے مطابق یہاں پر ہر جمعرات کو میلہ لگتاہے اوروادی تیراہ، اورکزئی اور دوسرے دوردارز علاقوں سے لوگ خریدوفروخت کے لئے آتے ہیں۔
ہاشم پیشے کے لحاظ سے کاشتکار ہے، اشیائے خوردنوش اور دیگرضروریات پورا کرنے کے لئے ہر جمعرات اس میلے میں آتاہے۔اُنہوں نے کہا کہ یہاں پر ہفتے میں ایک دن تازہ گوشت، کباب اور چاول ملتے تھے جو کافی زیادہ مشہور تھے اور ان کے لئے لوگ دور دارز علاقوں سے آتے تھے لیکن بازار کے دوبارہ کھولنے کے بعد وہ دوکانیں دوبارہ نہیں کھلے کیونکہ ایک تو بے گھر لوگوں کے واپسی مسائل کے بناء پر کم ہوئی اور دوسرے طرف لوگوں کے قوت خرید کمزور ہوگیا ہے۔
وقاص خان بھی دوکاندار تھا لیکن آجکل وہ بے روزگار ہے۔ اُنہو ں نے کہاکہ علاقے میں بدامنی سے یہاں پر اُن کا کاروبار بہت اچھا تھا لیکن جیسے ہی علاقے میں شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیا ں شروع ہوئی تو اُن کے کافی بُرے اثرات علاقے پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔اُنہوں نے بتایاکہ اُن کے مالی حالت اب اتنا نہیں ہے کہ وہ دوبارہ کاروبار شروع کرسکے کیونکہ نقد پیسے وہ کھا چکے جبکہ لوگوں کے اوپر اٹھارہ لاکھ قرضہ ہے اور کوئی واپس کرنے کے لئے تیار نہیں۔
مقامی تاجروں کاکہنا تھاکہ اب تک کسی بھی حکومتی عہدیدار یا عوامی نمائندہ نہیں آیا جواپنے نقصانات کے ازالے کے حوالے پوچھیں البتہ پچھلے سال سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈو یلپمنٹ(سمیڈا) کے دفتر میں اپنے نقصانات کے تمام ضروری کاغذات جمع کردئیے تھے اور یقین دہانی کرائی تھی کہ جلد اس حوالے سے علاقے کا سروے کیاجائیگا تاہم اب تک کچھ نہیں ہوا۔
انجمن تاجران باڑہ کے مطابق ستمبر 2009میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں باڑہ بازار جہاں پر دس ہزار سے زیادہ تجارتی مراکز تھے فروری 2015تک بند رہے۔اُنہوں نے کہاکہ وادی تیراہ اور دیگر علاقوں میں قائم چھوٹے تجارتی مراکز نہ صرف کئی سالوں تک بند رہے بلکہ وہاں پر موجود دوکانیں مکمل طورپر مسمار ہوچکے ہیں جس کے بحالی کے لئے تاجربرادری کو نہ صرف مشکلات کا سامناکرنا پڑا بلکہ تاجروں کے بڑی تعداد نے اپنا کاروبار مجبور ا ً چھوڑنا پڑا۔
دوردراز علاقوں کے تباہ شدہ معیشت کے بحالی کے لئے علاقے میں زیر تعمیرسڑکوں کے کام جلد مکمل کرنا ضروری ہے۔ جنت گل آفرید ی زرعی اجناس کے تاجر ہے، اُنہوں نے کہاکہ راستوں کے خراب صورتحال کے بناء پر پشاور، کوہاٹ اور باڑہ سے تجارتی سامان لانے اور لے جانے پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے اور کاہگ کو بھی خریدنا مشکل ہوجاتا ہے۔
انجمن تاجران باڑ ہ کے رہنما سید آیاز وزیر نے کہاکہ 2012میں تاجروں نے نقصانات کے ازالے کے لئے سیمڈا کے ساتھ درخواستیں جمع کرائی تھے لیکن مختلف قانونی اور دفتری پیچیدگیوں کے بناء پر اُس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی اور طویل انتظار کے بعد دوبارہ 2016میں باڑہ اور علاقے کے دیگر تجارتی مراکز میں متاثرہ تاجروں نے تین ہزار سے زیادہ درخواستیں جمع کیں جن میں اب تک 150تاجروں کو معاوضے کے چیک موصول ہوچکے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ علاقے سے ممبر صوبائی اسمبلی حاجی شفیق متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں تاہم اس سلسلے میں صرف یقین دہانی کرائی گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں اور ضم اضلاع میں آج بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں پر ہفتے میں خریداری کے لئے ایک بازار لگ جاتاہے جس کو مقامی لوگ ہفتے کے ایک د ن کے نام کے ساتھ جوڑ کر میلہ بولتے ہیں۔ ضلع خیبرکے وادی تیراہ کے مختلف علاقوں میں جن میں لرباغ، برباغ، پیر میلہ وغیر ہ آج بھی موجود ہے۔آمد ورفت میں آسانی اور انسانی ضروریات میں اضافے کے وجہ سے پہلے کے نسبت یہی تجارتی مراکز میں بڑی تعداد میں دوکانیں تعمیر ہوچکے ہیں۔
تاجربرادری کاکہنا ہے کہ اب تک سمیڈا کے جانب سے اُن کے ساتھ باقی ماندہ درخواستوں پر عمل درآمد کے حوالے سے کچھ نہیں کہاگیاہے۔ متاثر تاجروں کے مالی معاونت کے سلسلے میں 150میں صرف تین تاجروں کو دس دس لاکھ جبکہ باقی کو ایک یا دو لاکھ روپے معاوضے کے چیک دئیے گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق سیمڈا کے پاس مختلف قبائلی اضلاع کے دس ہزار سے زیادہ درخواستیں موجود ہے لیکن فنڈ کی کمی اور کرونا وباء کے وجہ سے تمام درخواستیں پر عمل درآمد کا سلسلہ روک دیاگیا ہے۔