ضم اضلاع کی شعبہ تعلیم۔۔۔۔کچھ تلخ حقائق

Fata-Schools-1024x685-1.jpg

میرسلام بیٹنی: تجزیہ کار

امیروں کے بچے، سرکاری ملازمین کے بچے تو باہر کسی بڑے شہر میں پڑھنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن کیا ہوگا اس عام قبائلی بچے کا جو صبح ایک سرکاری عمارت میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی ٹاٹ پر بیٹھ کر ایک جمع ایک دو پڑھ کر گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں۔ حکومت سکولوں کی تعمیر اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش تو کررہی ہے لیکن وہ اصل ضرورت جو بچے کو کچھ پڑھا سکے اس کو ضروری نہیں سمجھتی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم نے ہزاروں ٹیچرز بھرتی کرکے سابقہ فاٹا میں بے روزگارنوجوانوں کو روزگار فراہم کیا،اب ایسی باتوں پر دل خون کے آنسو رونے کو چاہتا ہے کہ حکومت ایک طرف ایک شخص کو روزگار فراہم کردیتی ہے لیکن ان کے ہاتھوں ہزاربچوں کو تباہ کردیتی ہے تعلیم کا شعبہ ایک حساس شعبہ ہے یہاں آپ نے روزگار فراہم نہیں کرنا بلکہ معماران قوم فراہم کرنے ہیں۔

اس سے بڑھ کر ستم ظریقی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تمام شعبوں میں سکیل پانچ سے اوپر کے پوسٹوں پر تعیناتی کیلئے ایٹا،این ٹی ایس وغیرہ کے ٹیسٹ پاس کرنے پڑتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اساتذہ سولہ سکیل کے ایس ای ٹی تک بغیر ٹیسٹ کے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ بات تلخ تو بہت ہے اور میرے محترم اساتذہ کو شاید بری بھی لگے لیکن حقیقت سے آنکھیں تو نہیں چرائی جاسکتی اب وہ اساتذہ جو بغیر ٹیسٹ کے آج سے دس پندرہ سال پہلے بھرتی ہوئے ہیں اور اب بغیر ٹیسٹ کے پروموٹ ہوجاتے ہیں کیا قرین انصاف ہے؟ معماران قوم میں اچھے اور فرض شناسوں کی کمی بھی نہیں لیکن یہ بھی ماننا ہوگا کہ اکثریت نے اس پیغمبری شعبہ کو بے انتہا نقصان بھی پہنچایا ہے۔

فاٹا کے سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے حقیقی طلباء کیلئے ہر سال حکومت خیبر پختونخواہ کی طرف سے سکالرشپ دی جاتی ہے اور منتخب ہونے والے طلباء کو صوبے کے ممتاز سکولوں اور کالجوں میں مفت تعلیم کی سہولت دی جاتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ حقیقی طلباء محروم رہ جاتے ہیں اور ڈی آئی خان، بنوں،پشاور کے اعلیٰ نجی سکولوں میں پڑھنے والے طلباء ان سکالرشپ پر چلے جاتے ہیں یہ بچے داخل تو فاٹا کے کسی دور افتادہ غیر آباد سکول میں ہوتے ہیں لیکن پڑھتے کسی بڑے شہر میں۔ میٹرک کے بعد اور یونیورسٹیوں میں فاٹا کے طلباء کیلئے مخصوص سیٹوں پر بھی ایسے ہی طلباء چلے جاتے ہیں جو صرف امتحان دینے فاٹا جاتے ہیں اور پڑھتے کسی بڑے شہر میں۔ فاٹا کا ڈومیسائل بنانا بڑے لوگوں کیلئے اور اس جیسے نظام میں بنانا کوئی مشکل نہیں اس لئے بس فاٹا ڈومیسائل بناؤ اور پھر قبائلی عوام کیلئے مخصوص رعایتوں، سکالرشپس اور ملازمتوں کے فائدے اٹھاتے رہو۔

فاٹا میں ایسے ہائی سکول بھی پائے جاتے ہیں جہاں پڑھانے کو استاد نہیں اور پڑھنے کو بچے نہیں لیکن ان کے امتحانی ہال میں بیٹھے بچے ہزار سے اوپر کے نمبر لے جاتے ہیں۔ اب فاٹا سے ملحقہ بندوبستی علاقوں کے نجی سکولز یہ سہولت بھی فراہم کرتے ہیں کہ ان کا اصل داخلہ توفاٹا کے کسی سرکاری سکول میں ہوگا اور اسی سے امتحان بھی دیگا لیکن پڑھے گا اسی نجی سکول میں جبکہ سرکاری سکول میں حاضری نہ لگانے کی سہولت نجی سکول کے مالک اور متعلقہ سرکاری سکول کے ہیڈ کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے جبکہ سرکاری سکولوں کیلئے آنی والی مفت جماعت ششم اور نہم دہم کی کتابیں بھی سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو ملنے سے پہلے نجی سکولوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ اور اس تمام ڈیل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فاٹا کے سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے اصل بچے اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کے نام پر کیا نہیں ہوتا اور اسے حاصل کرنے کیلئے کیا کیا حربے استعمال نہیں کئے جاتے۔ اسی بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کے لالچ میں اب دوران امتحان ہالوں میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ امتحانی ہالوں کی ڈیوٹیاں لگانا ایک اور مرض ہے اور پھر امتحانی ہالوں کا حال بارے لکھنا انسان کو بے حال کردیتا ہے۔ پچھلے دنوں ہی ایک شریف شہری سے ملنا ہوا جس کے ہاتھوں میں ایک شکایتی درخواست ایجوکیشن ڈائریکٹر کے نام لکھی گئی تھی کہ امتحانی عملے بچوں سے پانچ پانچ سو روپے اکھٹا کرکے لے گئے ہیں اور امتحان تو ہوئے بھی نہیں لہذہ وہ رقم واپس کی جائے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جبکہ وہ مناظر ہم کیسے بیان کرینگے جب امتحانی عملے نے تحائف کے نام اتنا کچھ جمع کیا تھا کہ واپسی پر انہوں نے مزدا گاڑی کو آردڑ دیا تھا۔

شعبہ تعلیم میں جاری اندھیر نگری ایک بہت بڑا المیہ ہے قوموں کی بربادی اسی سے ہے حکومت تمام شعبوں میں اصلاحات لانے کی کوشش کررہی ہے لیکن تعلیم کے شعبہ میں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔ صرف ہزاروں اساتذہ بھرتی کرنا کافی نہیں، جھولیں لگانا کافی نہیں، بستے فراہم کرنا کافی نہیں بلکہ سرکاری سکولوں کی تدریسی حالت کو بہتر بنایا جائے، ان کی حاضری یقینی بنائی جائے اور پھر ٹائم پاسنگ کی بجائے انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ بچوں کو پڑھائے۔ اساتذہ قوم کے بچوں کو آنے والے مستقبل کیلئے تیار کرے، اپنا فرض نبھانے کیلئے اپنی زات سے نکل کر معاشرے کی بھلائی کا سوچے اور حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان کو کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے“ کی حقیقی روح کو سمجھے۔

قارئین میرسلام بیٹنی سے اس ای میل mirsallam.jandola@gmail.com پر رابطہ  کرسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top