اسلام گل آفریدی
شام کو تیز سرد ہوائیں اورخاص قسم کے کیڑوں کی آوازیں ایک طرف وادی کے باسیوں کو موسم خزان کے آمد کی خبر دیتاہے تو دوسرے طرف سردی میں اضافے کے ساتھ وادی کے باسیوں کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اعظم خان سمیت علاقے کے ہزاروں خا ندان ایسے ہیں جوکہ چارسال پہلے اپنے گھروں کو تو واپس لوٹ چکے ہیں لیکن گھروں میں بیشتر کمرے تباہ ہونے کی وجہ سے زندگی مشکل سے گزاررہے ہیں۔
ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ کے علاقہ وادی تیرا ہ اکاخیل جوکہ باڑ ہ بازار سے اسی جبکہ کوہاٹ سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع ا ورکزئی کے سرحد پر واقع ہے۔ مسلک کے بنیاد پر لڑنے والے لشکر اسلام اور انصاراسلام تنظیموں کے درمیان آخری شدید لڑائی ان علاقوں میں لڑی گئی۔
2014 کے اوائل میں د ہشت گردوں خلاف خیبر ٹو آپریشن کے نتیجے میں وادی کے تمام لوگوں نے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں رہائش اختیارکرلی۔ 17اکتوبر2016کو حکومت نے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک قرار دیکر لوگوں کو واپس اپنے علاقے میں آنے کی اجازت دی۔
نقل مکانی سے پہلے اعظم خان اپنے دو بھائیوں کے ساتھ چھ کمروں کے گھر، مہمان خانہ (حجرہ)ا ور مسجد موجود تھامیں رہتے لیکن اب وہ صرف ایک کمرے کے اندر گھرکے تمام افراد رہائش پزیر ہے۔اُنہوں نے کہا کہ جب حکومت نے واپسی کا اعلان کردیا تو ہم کافی خوش ہوئے کہ اس مشکل زندگی سے چھٹکارا مل جائیگا لیکن جب اپنے بیوی بچو ں کے ساتھ واپس اپنے گھر آئے تو سارے کمرے تبا ہ ہوچکے تھے،مہمان خانے کے چھت پر ماٹر گولہ لگنے سے بڑا سوراخ ہوگیا اور مسجد کے عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔انتہائی مشکل سے ایک کمرہ، مہمان خانہ اور مسجد دوبارہ استعمال کے قابل بنادیا۔
اُنہوں نے کہا کہ اب تک علاقے میں تباہ شدہ مکانات کی کوئی سروے شروع نہیں کیاگیا ہے تاہم مقامی آبادی کے مطابق ایک سال پہلے حکومتی ٹیم نے درس جماعت کے قریب بیس خاندانوں کی اندارج کرائی تھی لیکن تاحال اُن کو معاوضے کے حوالے سے کچھ نہیں کیاگیا ہے۔
جہانگیر آفریدی علاقے کا سیاسی رہنماء ہے اور حال ہی میں میڈیا کے نمائندوں کے وفد کے ساتھ آکاخیل کے دورافتاد ہ علاقوں کا دورہ کرکے لوٹ چکا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے لہر میں تحصیل باڑہ کے تمام علاقے متاثر ہوچکے ہیں لیکن حکومت اور امدادی اداروں کے مدد سے سوائے اکاخیل تیراہ کے باقی تمام علاقوں میں تباہ شدہ مکانات کے سروے اور تعمیرنو کے کام شروع کردئیے گئے۔جہانگیرنے کہاکہ علاقے کے عوام کو کئی اہم مسائل درپیش ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ تباہ شدہ مکانات کی سروے ہے جس کو جلد شروع کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائیگی۔
علاقے کے عمائدین کے مطابق وادی تیراہ اکاخیل میں تیس ہزار لوگ رہائش پزیر ہے جبکہ دہشت گردی کے شدید لہر میں تین ہزار سے زیادہ مکانات مکمل طورپر تباہ ہوچکے ہیں۔اُن کے بقول علاقے میں اپنے ہی جنگلات سے تعمیرات کے لکڑی کے کٹائی اور اپنے گھروں تک لانے میں سیکورٹی فورسز کے جانب سے سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
راہد گل آفریدی اس علاقے کا ایک سماجی کارکن ہے،اُن کا کہنا ہے کہ پوری ضلع میں آکاخیل وادی تیراہ میں واحد ایسا علاقہ ہے جہاں پر دہشت گردی سے بے گھر افراد کے اپنے علاقوں میں واپسی کے چار سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن تاحال کسی بھی حکومتی یا غیر سرکاری ادارے نے اس علاقے میں دوبارہ آبادی کاری کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔
حلقہ این اے 44 سے ممبر قومی اسمبلی محمد اقبال آفریدی نے تیراہ اکاخیل میں تباہ شدہ مکانات کے سروے کے حوالے سے کہا کہ جلد علاقے میں تباہ شدہ مکانات کے سروے شروع کردیا جائیگا اور اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل کرلی گئی ہیں جبکہ ٹیمیں بھی تشکیل دئیے گئے۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہاں کے مقامی آبادی نے کافی قربانیاں دئیے اور اُن کے مشکلات کا احساس ہے اس وجہ سے اسمبلی میں بھی تباہ شدہ مکانات کے سروے جلد مکمل کرنے اور مقرر کردہ معاوضہ بڑھانے کی حوالے سے بات کی ہے۔
آفریدی قبیلے کے ذیلی شاخ آکاخیل باڑہ بازار کے قریب اور پہاڑی علاقے جن کے حدود شاڈلے علاقے سے شروع ہوتاہے جو میر ی خیل، سلطان خیل، ٹنڈے،دروٹہ، مزے، انزر، کنڈولی، سوخ خوشاپ،کولہ سے ہوتے ہوئے سڑے کنڈاؤ پر ختم ہوتا ہے۔
محمد ضابط چھٹی کلاس کا طالب علم ہے لیکن اُن کا سکول اسی کلومیٹر دُورباڑہ بازار کے قریب واقع ہے اور وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اُن کو معلوم ہے کہ پندرہ ستمبر سے کرونا کے وجہ سے چھ مہینوں تک بند سکول کھول چکے ہیں لیکن وہ پڑھائی کے بجائے اپنے والدین کے ساتھ تباہ شدہ مکانات کے مرمت میں مصروف ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ بہت کوشش کی کہ آنے والے سردی کا موسم کمرے کے چھت تلے گزریں لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔ اُن کہناتھا کہ سردی کے موسم میں شدیدبرف باری ہوتاہے اور خیمے میں گزرا ممکن نہیں ہوتا۔
حلقہ پی کے 107سے ممبر صوبائی اسمبلی نے اس تاثر کو رد کردیا کہ انتخابات کے بعد اُنہوں نے تیراہ کا دورہ ہی نہیں کیا ہے اُنہوں نے کہا کہ اکاخیل تیراہ انتہائی پسماندہ اور دہشت گردی سے متاثر علاقہ ہے، اس وجہ سے ترقیافی فنڈکا آدھا حصہ ان علاقوں میں خرچ کیا جارہاہے۔ اُنہوں ایک سوال کے جواب میں کہاکہ تباہ شدہ مکانات کے سروے تحصیل باڑہ کے مختلف علاقوں میں جاری ہے اور جن علاقوں میں اب اس سلسلے میں کچھ نہیں ہوا تواُس کے لئے لائحہ عمل بنایاگیا جس پر جلد عملی کام شروع ہوجائیگا۔
کئی لوگوں نے سروے کے انتظار کی وجہ سے چارسالوں میں تباہ شدہ مکانات کے دوبارہ تعمیر اتی کام شروع نہیں کیا جس کے وجہ سے باقی عمارت کو مزید نقصان پہنچااوردیواریں گرگئے ۔علاقے کے سڑکیں آمد ورفت کے قابل نہیں جس کے وجہ سے تعمیراتی مواد اس علاقے میں بھاری معاوضے کے بدلے پہنچایا جاتاہے۔ بڑی تعداد میں مکانات کا ملبہ اُسطر ح پڑا ہے اور گھر کے مالکان غربت کی وجہ سے دوبارہ اپنے علاقے کو نہیں لوٹے ہیں۔