سدھیر احمد آفریدی:سینئر تجزیہ کار
افغانستان کی سپریم قومی مصالحتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان بے یقینی اور بد اعتمادی کی فضاء کم ہونے لگی جو کہ خوش آئند ہے اگرچہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا ماضی قریب تک پاکستان کے بارے میں خیالات دوستانہ نہیں تھے لیکن اب لگتا ہے ان کو پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات اور نظریات پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اس موقع پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ماضی میں جھانکنے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں اور دیر آئد درست آئد کے مصداق ان کے دورہ پاکستان کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بردرانہ اور دوستانہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ اور مضبوط ہونگے۔
سچی بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے دور ہو نہیں سکتے اور دونوں ممالک کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور دونوں ممالک تجارت اور کاروبار کے حوالے سے ایک دوسرے کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور بالخصوص پاکستان کی مصنوعات کے لئے افغانستان ایک اہم تجارتی اور کاروباری منڈی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں کچھ عرصے سے دیکھنے میں آرہا تھا کہ افغانستان کی مارکیٹ میں ایران اور ہندوستان کی اشیاء اور مصنوعات نے جگہ لی ہے۔
موجودہ وقتوں میں افغانستان کے اندر جہاں پاکستانی مصنوعات کی جگہ بہت کم پڑ گئی تھی جس سے پاکستان کی ایکسپورٹ اور صنعتوں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا تھا اور دوسری طرف پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کو ایران اور ہندوستان کے ساتھ روابط اور تجارت میں اضافہ کرنا ہر حوالے سے مہنگا پڑ رہا تھا اور یہی وجہ ہے کہ دونوں برادر اسلامی اور پڑوسی ممالک کے درمیان بداعتمادی کی وجہ سے دونوں ممالک کے عوام اور تاجر پریشان حال تھے۔
اس لئے اب پاکستان کی حکومت نے خیر سگالی کی بنیاد پر کہئیے یا پھر پالیسی میں تبدیلی کی بنیاد پر افغان عوام، مریضوں، طلباء اور کاروباری طبقے کو ویزے میں جو نرمی دینے کا اعلان کیا ہے اس سے یقیناً افغان عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اس نئی پالیسی کے مطابق افغان طلباء کو تعلیم مکمل کرنے تک ویزہ کی سہولت دی گئی ہے جبکہ مریضوں کو بارڈر پہنچنے پر ویزہ دیا جائیگا۔
اس طرح جو تاجر پاکستان میں تین سو ڈالرز کی سرمایہ کاری کریں ان کو پانچ سال تک ویزہ دیا جا سکے گا اور جو تاجر ایک سو پچاس سے دو لاکھ ڈالرز تک سرمایہ کریں ان کو تین سالہ ویزہ دیا جائیگا جبکہ جن افغانوں کے رشتہ دار پاکستان میں مقیم ہیں ان کو پینتالیس دنوں پر محیط ویزہ دیا جا سکے گا اور ان کو ویزے میں توسیع کے لئے دوبارہ افغانستان میں قائم پاکستانی سفارت خانے میں جانے کی ضرورت نہیں پڑیگی اور ادھر اسلام آباد میں وہ ویزے میں توسیع کرواسکیں گے اور اسی طرح پاکستان پہلے دو ہزار ویزے دیتا رہا جس میں اب پانچ ہزار تک اضافہ کیا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے افغان عوام کو ویزے کی مد میں کافی زیادہ سہولیات دیکر فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے عام افغان، طلباء، مریض اور کاروباری لوگ مستفید ہو سکیں گے گزشتہ چھ ماہ سے طورخم بارڈر پر دونوں طرف کے لوگوں اور مزدوروں کے آنے جانے پر کورونا وائرس کی وجہ سے جو پابندی عائد تھی اس میں بھی بہت نرمی کر دی گئی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طورخم بارڈر پر عام مزدوروں کے آنے جانے پر جو پابندی تھی اس کے خلاف لنڈی کوتل اور طورخم کی مزدور یونین نے احتجاج کیا جس میں مقامی لوگوں، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور قومی مشران نے ان کا ساتھ دیا اور موثر احتجاج کے بعد متعلقہ حکام نے مرکزی حکومت کو سفارش کر دی کہ طورخم بارڈر پر مزدوروں کو کام کرنے اور آنے جانے کی اجازت دی جائے جس کی منظوری دے دی گئی اور اب طورخم بارڈر پر عام لوگوں سمیت مزدور ہفتے میں چار دن جا سکتے ہیں جس سے یقینآ مزدوروں کو فائدہ ہوگا اور اب وہ فاقوں سے بچ سکیں گے
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لنڈی کوتل سمیت دیگر قبائلی علاقوں میں کارخانے اور زراعت کے شعبے موجود نہیں جہاں نوجوان کام کر کے روزی روٹی کما سکے اور ان تمام قبائلی عوام کے لئے یہی سرحدی راستے بچتے ہیں جن کے ذریعے وہ پاکستان اور افغانستان کے مابین چکر لگا کر کوئی مزدوری کر سکے اور ان لوگوں کے لئے یہی بارڈر ایک تجارتی گزرگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قبائلی عوام پاکستان اور افغانستان کے مابین امن، بھائی چارے اور دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں پاکستان کی اس نئی ویزہ پالیسی اور مزدور کے آنے جانے پر عائد پابندی ہٹانے کے بعد سیکیورٹی فورسز کے حکام، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے حکام نے طورخم بارڈر کے دورے کرکے حالات کا جائزہ لیا اور ضروری فیصلے کے گئے تاکہ بارڈر پر کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو اور اس کی حفاظت اور حفاظتی اقدامات کے حوالے سے بھی متعلقہ حکام کے مابین مشاورت ہوئی ہے۔
ویسے تو گفت وشنید یا مشاورت جس کو میڈیا کے سامنے تو ظاہر نہیں کیا گیا ہے لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی مشاورت ہوئی ہوگی جس سے بارڈر کے راستے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ ہو جس سے بے روزگاری اور غربت جیسے سنگین درپیش مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے طورخم بارڈر پر عام لوگوں کی بندش اور دیگر مشکلات کی وجہ سے مقامی لوگ انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار تھے۔
سرحد کے دونوں اطراف جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا تھا اب ان پابندیوں میں نرمی کے باعث مقامی غریب مزدور کار اور کاروباری طبقات کو کچھ سکون نصیب ہوگا اور حالیہ ریاستی فیصلے ملک اور عوام کی بہتری میں مفید ثابت ہونگے اور اگر دونوں پڑوسی ممالک کے مابین اعتماد کی فضاء اور بہتر ہوئی تو اس سے پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے گا جس سے پاکستانی مصنوعات کی پیداوار اور فروخت میں قابل ذکر اضافہ ہو گا جس کا سب سے بڑا فائدہ قومی خزانے کو ہوگا