قبائلی اضلاع:شمالی وزیرستان میں اب لڑکیوں کی تعلیم بُرا نہیں سمجھا جاتا

1706725-schoolsnew-1525934384.jpg

‘پہلے لڑکیوں کے سکول میں کم تعداد ہوا کرتی تھی کیونکہ والدین لڑکیوں کی تعلیم کو اتنا توجہ نہیں دیتے تھے لیکن اب ہمارے پاس کلاس لڑکیوں سے بھری ہوتی ہے جن کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے کہ اب یہاں کی لڑکیاں بھی پڑھ لکھ رہی ہیں’

یہ کہنا ہے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی شمشاد بیگم کا جو میرانشاہ ہائی سکول میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔شمشاد بیگم نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد جب لوگوں نے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کی اور بندوبستی علاقوں میں رہائش اختیار کی تو وہاں انہوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا اور اپنے علاقوں میں واپس آنے کے بعد اپنی بچیوں کی تعلیم کی طرف توجہ دینی شروع کر دی۔

انہوں نے بتایا کہ اب انکے ساتھ بڑی عمر کی لڑکیاں بھی ہیں جو چوتھی اور پانچویں میں پڑھتی ہے اور عمر زیادہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتی ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ شمشاد بیگم نے کہا کہ اب لڑکیاں خود بھی تعلیم کی طرف توجہ دے رہی ہے اور سکول کے دور ہونے کی مشکل سے بھی نمٹنا سیکھ گئی ہیں۔

محکمہ تعلیم شمالی وزیرستان کے مطابق ضلع بھرمیں سکولوں کی کل تعداد 909 ہے جن میں سے 479 لڑکوں کے اور 421 لڑکیوں کے (سکول )ہیں جبکہ ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد 70363 ہے۔ محکمہ تعلیم کے مطابق ضرب عضب آپریشن کے دوران شمالی وزیرستان میں 54 سکول مکمل طور پرجبکہ 147 سکول جزوی طور پرتباہ ہوئے تھے جن میں سے زیادہ ترکو یا تو دوبارہ بنالیا گیا ہے یا ان پرکام جاری ہے۔

شمشاد بیگم کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے سماجی کارکن زاہد اللہ داوڑ نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو لوگوں نے بندوبستی علاقوں کی طرف نقل مکانی کی۔ وہاں کے ماحول کو دیکھتے ہوئے اور وہاں وقت گزارنے کے بعد شمالی وزیرستان کے لوگوں کو اس بات کا ادراک ہوا کہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا جس کے بعد انہوں نے بھی اپنی بچیوں کو سکول بھیجنا شروع کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں پہلے لڑکیوں کی تعلیم کی شرح 2 یا 3 فیصد تھی لیکن اب اس میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ زاہد داوڑ نے بتایا کہ شمالی وزیرستان کے شہری علاقوں میں سکولوں کی حالت بہتر ہوئی ہے لیکن دیہی علاقوں میں سکولوں کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

زاہد داوڑ کے مطابق جب لڑکیاں تعلیم یافتہ ہونگی تو انکو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوگا اور پھر آنے والی نسلوں کو اس طرف راغب کریں گی۔

یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب جون 2014 میں شروع کیا تھا جو اپریل 2016 تک جاری رہا جس کے نتیجے میں اسی ہزار تین سو دو خاندانوں کے نو لاکھ انتیس ہزار آٹھ سو انسٹھ افراد بے گھر ہوئے تھے جن میں تقریبا 98 فیصد کی اپنے علاقوں کو واپسی ہوچکی ہے۔

محمد اشرف تپی جنہوں نے انگلش میں ماسٹر کررکھا ہے نے بتایا کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ پہلے اپنی بچیوں کو نہیں پڑھاتے تھے لیکن اب انکی سوچ میں کافی تبدیلی آگئی ہے اوروہ اپنی بچیوں کو پڑھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے لوگ لڑکیوں کی تعلیم کو توجہ نہیں دیتے تھے لیکن اب سکول بن رہے ہیں جو تباہ ہوئے ہیں ان کی بحالی پہ بھی کام جاری ہے اور لوگوں میں شعور بھی آگیا ہے جس سے انکی امید بندھ گئی ہے کہ شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح مزید بہتر ہوجائے گی۔

خیبرپختونخوا حکومت بھی نئے ضم شدہ اضلاع میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ چند روز قبل ضم اضلاع میں پرائمری سکول طلباء کے لئے سکالرشپ کی مد میں دو ارب 95 کروڑ کی لاگت کی سکیم منظور ہوئی جس کے تحت 70 فیصد حاضری پرلڑکیوں کو ایک ہزار روپے جبکہ لڑکوں کو 500 روپے ماہانہ وظیفہ فراہم کیا جائے گا۔

صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی اجلاس میں ضم اضلاع میں سیکنڈری سکولوں کے طلباء کو بھی ایک ہزار روپے ماہانہ فراہم کرنے کے لئے 76 کروڑ روپے کی لاگت سے سکالرشپ سکیم کی منظوری دی گئی اور اس کے ساتھ ایک ارب 47 کروڑ روپے کی لاگت سے ضم اضلاع میں پرائمری تا ہائیر سیکنڈری سکولوں میں 4315 اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کے لئے سکیم کی منظوری بھی دی گئی۔

خیبرپختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع میں تعلیم کیلئے 22 ارب روپے مختص کئے ہیں، حکام کے مطابق یہ فنڈز سی اینڈ ڈبلیو کی بجائے والدین اور اساتذہ کونسل کے ذریعے خرچ کیےجائیں گے۔ اس سلسلے میں گزشتہ برس محکمہ تعلیم نے انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ کو قبائلی اضلاع تک توسیع بھی دی ہے۔ آئی ایم یو کی توسیع سے نہ صرف سکولوں میں اساتذہ کی حاضری یقینی ہوجائے گی بلکہ سکولوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جاسکے گا۔

‘میرعلی میرانشاہ اور سپین وام میں سارے تعلیمی ادارے فعال ہیں اور لڑکیاں بھی باقاعدگی سے سکول جاتی ہیں البتہ نواحی علاقوں میں چند تعلیمی ادارے بند ہیں جنہیں کھولنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ یہاں کی لڑکیاں بھی پاکستان کے ترقی یافتہ مستقبل میں اپنا حصہ ڈال سکیں’

ان خیالات کا اظہار تنظیم اساتذہ جنرل سیکرٹری شمالی وزیرستان عبد الرزاق داوڑ نے کیا۔انہوں نے کہا کہ چند ایسے علاقے ہیں جہاں سے لڑکیوں کے سکول دور ہیں لیکن انکے والدین نے انکے لئے یا تو کسی ٹیوشن کا بندوبست کیا ہوتا ہے یا پھر گھر میں ہی کوئی ان کو پڑھاتا ہے۔ عبد الرزاق کے مطابق شمالی وزیرستان میں میٹرک تک لڑکیوں کی تعلیم کی شرح زیادہ ہے البتہ میٹرک کے بعد بہت کم تعداد میں لڑکیاں آگے پڑھتی ہیں۔

عبدالرزاق نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں خواتین کی تعلیم کی شرح میں اضافے کے لئے وہاں کی روایات کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا جس میں پردہ ایک اہم جزو ہے۔تعلیمی اداروں میں مرد فیلڈ آفیسر کا سکولوں کا دورہ کرنا یہاں معیوب سمجھا جاتا ہے جس پر اہل علاقہ متعرض ہیں اور یہی بظاہر چھوٹی نظر آنی والی وجوہات ہائی لیول سکولوں میں بچیوں کے ڈراپ آوٹ کا سبب بنتی ہیں۔اگر محکمہ تعلیم ان علاقوں کے لئے مرد فیلڈ آفیسر کی بجائے خواتین کا انتظام کرے تو والدین کا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی آبادی 543254 نفوس پر مشتمل ہے۔

محمد شعیب جو میرانشاہ گورنر ماڈل سکول میں سینیئر استاد ہیں کا کہنا ہے کہ یہاں پہلے لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ کم تھی لیکن اب یہاں کے لوگوں کو احساس ہو گیا ہے کہ گھر اور معاشرے کے ماحول کو بدلنا ہے تو عورت کو تعلیم یافتہ کرنا ہو گا کیونکہ اولاد کی بہتر تربیت کے لئے ایک پڑھی لکھی ماں کا ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں کئی علاقوں میں سکول تو پہلے سے موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان سکولوں کو مقامی لوگ بیٹھک کے طور پر استعمال کرتے تھے اور جہاں پر سکول فعال بھی ہوتے تھے تو وہاں پڑھائی صحیح طریقے سے نہیں ہوتی تھی یا اساتذہ غیرحاضر رہتے تھے، جہاں اساتذہ ہوتے بھی تو ایک دو پیریڈ لینے کے بعد سکول بند کر دیتے لیکن اب اگر کہیں استاد غیر حاضر ہوں تو لوگ احتجاج کرتے ہیں۔

محمد شعیب یہ بھی بتایا کہ اگرچہ سکولوں کی حالت بہتر ہوئی ہے تاہم شمالی وزیرستان میں ابھی تک ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے حکومت کو چاہیے کہ اس طرف بھی توجہ دے اور یہاں کالجز کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی بھی بنائے تاکہ لڑکیاں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی کم ہے اگرپرائیویٹ تعلیمی ادارے یہاں زیادہ بن جائیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ طلباء کو آن لائن کلاسز کی بھی سہولت دی جائے تو بھی تعلیمی شرح بہتر ہوسکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top