اسلام گل آفریدی
کرونا وباء کے وجہ سے عدنان شنواری چھ مہینوں تک بے روزگار رہا لیکن پچھلے ایک مہینے سے وہ ہفتے میں ایک دن کے کمائی سے گھر کے ضروریا ت پورا کرنے کی کوشش کررہاہے لیکن یہ سب کچھ اُن کے لئے آسان نہیں۔ عدنان ضلع خیبر کے تحصیل لنڈی کوتل کا رہائشی ہے اپنے والدین، بیوی اورچار بچوں کے کمائی کا واحد سہارا ہے۔ وہ افغان سرحدی گزرگار ہ طورخم پر مسافر وں کیساتھ سرحد پر سفری سامان لاتا اور لے جاتا ہے۔ 20ستمبر سے وہ کرائے کے لئے پیسے قرض لیکرطورخم میں مزدور یونین کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کرنے آتا ہے۔
طور خم سرحد پر کام کرنے والے مزدور، ٹرانسپوٹرز، ہوٹل مالکان اور دوکانداروں نے اپنے مطالبات کے لئے دھرنا شروع کررکھا تھا لیکن آج 26ستمبر کو سیکورٹی حکام اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے جس میں فیصلہ کیاگیا کہ پہلے مرحلے میں دوہفتوں کیلئے طورخم سرحد ہفتے میں ایک دن کے بجائے تین دن یعنی منگل، جمعرات اور ہفتہ کو لوگوں کے آمد ورفت کے لئے کھلارہیگا۔ مزدور یونین کے رہنماؤں کے مطابق تیسرے ہفتے سے سرحد ہفتے میں پانچ دن کھلا رہیگا۔
سماجی کارکن اور تنظیم نوجوانان قبائل کے سربراہ اسرار شنواری بھی جاری دھرنے میں روزانہ شرکت کرتا ہے۔ اُن کے بقول دوسال پہلے بارڈر منجمینٹ پالیسی پر عمل درآمد کے بعد سرحد پر آمد ورفت کے لئے سفری دستاویزات جن میں شناحتی کارڈ،پاسپورٹ اور ویزہ کے لازمی قرار دینے کے بعد مقامی مزدروں کے معاشی مسائل میں اضافے کا سبب بن گیا اور ہزاروں کے تعداد میں مقامی لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔دھرنے کے مطالبات کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سرحد ہفتے میں ایک دن کے بجائے پورا ہفتہ کھلارہے اور سرحد پر آباد پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کو شناختی کارڈ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے اور حال ہی میں چمن سرحد پر مقامی آبادی کے شدید احتجاج کے بعد حکومت نے اسطر ح ہی فیصلہ کرچکا ہے۔
مختلف مسائل کے بناء پر طور خم سرحد پر تجارتی سرگرمیاں کم ہونے اور مقامی افراد کے بے روزگار ہونے کی و جہ سے نہ صرف علاقے کے بڑے تجارتی مرکز لنڈی کوتل پر کافی برُے اثرات مرتب ہوچکے ہیں بلکہ دیہاتوں میں قائم مارکیٹ بھی کافی متاثر ہوچکے ہیں۔ حاجی دین محمد اشیائے خوردنوش کے بڑے تاجر ہے،اُن کے بقول علاقے میں تجارت کا براہ راست تعلق طورخم کے ساتھ وابسطہ ہے کیونکہ اگر وہاں پر مقامی افراد زیادہ پیسے کماتے ہوں تو وہ اُس کے مطابق خریداری بھی کرلیتے ہیں جبکہ افغانستان سے کم قیمت پر تازہ سبزیاں اور میواجات بھی عوام کو دستیاب ہوتے تھے۔اُن کے بقول 2014کے بعد سرحد پر آباد تاجروں کے مسائل میں اضافہ ہوا جس کے وجہ سے دن بدن مجموعی تجارت کم ہوا۔
مزدور یونین کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ طورخم سرحد کو چمن کی طرح پورا ہفتہ آمد ورفت کے لئے کھولنا اور سرحد کے دونوں جانب قریب علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو شناختی کارڈ پر آنے جانے کی اجازت دیا جائے۔ یونین کے مطابق مسافروں کے ساتھ سامان سرحد پارلے جانے اور لانے میں مقامی مزدور ں کے ساتھ ماضی کی طرح آسان پالیسی مرتب کیاجائے تاکہ ہزاروں مزدروں کو بے روزگاری سے بچایا جاسکے۔
مزدور یونین کے صدر فرمان شینواری کے بقول 2012میں پچیس سو پاکستانی جبکہ افغانستان کے پندرہ سو مزدور یونین کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ اُنہوں نے کہاکہ بعد میں یہ اعداد شمارکافی بڑھ گیا تھا لیکن مزید چھ سومزدوروں کو رجسٹر ڈ کیاگیا۔ اُنہوں نے کہا کہ سرحد پر تعینات پاکستانی سیکورٹی حکام کے مشاورت سے دو سال پہلے سرحد پر آنے جانے کے لئے ہر مزدور کو رجسٹریشن کارڈ ایک سال مدت کیلئے جاری کیا جاتا تھا۔ اُنہوں نے کہاکہ مقامی افراد کے کمائی کا واحد زریعہ طور خم سرحد پر ہونے والی تجارت ہے لیکن بدقسمتی سے سارے مزدور، چھ ہزار ٹرانسپوٹرز،سینکڑوں دوکاندار اور ہوٹل مالکان بے روزگار ہوچکے ہیں۔
جاری احتجاجی دھرنے میں علاقے کے سیاسی،پارلیمانی اور صوبائی اسمبلی کے ممبرا ن کے شرکت کی۔ ضلع مہمند سے عوامی نیشنل پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی نثار مہمند نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا۔ اُنہوں نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت ہندوستان اور ایران کے ساتھ سرحد گزرگاہوں پر تجارت کے لئے جو پالیسی ہے اُس کو افغانستان کے ساتھ بھی اپنانا چاہیے تاکہ یہاں کہ مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر ہوسکے۔اُن کے بقول ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے مزید پانچ مقامات کھولے جارہے ہیں لیکن دوسرے طرف قبائلی اضلاع میں اٹھارہ میں سے چار مقامات پر بھی انتہائی محدود پیمانے اور مشکلات میں تجارتی سرگرمیاں ہورہے ہیں۔
افغان میڈیا کے مطابق طور خم سرحد کے اُس پار افغانستان میں شینواری قبیلے کے عمائدین نے بھی بغیر ویزے اور آمد ورفت آسانی پیدا کرنے کے لئے احتجاجی دھرنا شروع کردیا ہے۔مظاہرین نے دونوں ممالک سے مطالبہ کیاہے کہ سرحدکے دونوں اطرف میں رہائش پزیر لوگوں کو شناختی کارڈ پر آنے جانے کی اجازت دیا جائے تاکہ سرحد پرہونے والی تجارت کمائی کا واحد ذریعہ بند نہ ہوں۔پاکستان اورافغانستان کے درمیان ہونے والے تجارت کا اسی فیصد طورخم جبکہ بیس فیصد چمن، خرلاچی، انگوراڈہ اور غلام خان کے راستے ہوتا ہے، لیکن ماضی کے مقابلے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں مسائل کے اضافے کے وجہ سے مجموعی حجم سب سے نچلے سطح تک پہنچ چکا ہے۔
ماہر اقتصادیات اور سرحد چمبر آف کامرس کے صدر زاہد شینواری کا کہنا ہے کہ 2012 میں پاک افغان دوطرفہ تجارت کا مجموعی حجم 2.7ارب ڈالر تھا جو مسائل کے بناء پر کم ہوکر 2019میں 1.2ارب ڈالر ز رہ گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بارہا دونوں ممالک سے تجارت میں مسائل کے لئے حل کے مطالبے کیے گئے لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ زاہد کے بقول 2020میں دوطرفہ تجارت تاریخ کے نچلے ترین سطح تک پہنچ چکا اور مجموعی تجارتی حجم صرف 90کروڑ ڈالرزتک ہی رہ گیا ہے جو کہ کافی تشویش ناک صورتحال ہے۔
جاوید شینواری پچھلے پندرہ سالوں سے طورخم میں ہوٹل چلا رہاتھا۔ اُن کاکہناہے کہ سولہ دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہلاکت خیز حملے کے بعد طور خم سرحد پر آمد ورفت کے لئے سخت قانونی شرائط پر عمل درآمدشروع ہوا جس کے وجہ سے نہ صرف لوگو ں کے تعداد کم ہوگئی بلکہ مال بردار گاڑیوں کے تعداد میں بھی کم ہو ئی جس کے وجہ سے اُن کو اپناہوٹل بند کرنا پڑا۔
طورخم میں ٹرمینل کی تعمیر نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کے نگرانی میں پچھلے دوسالوں سے جاری ہے جس کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے مال بردار گاڑیاں لنڈی کو تل، جمرود اور باڑہ میں سڑک کے کنارے دو سے تین ہفتے اپنے باری کے لئے انتظار کرتے ہیں۔ تعمیراتی کام سے پہلے طورخم میں پندرہ سوبڑے گاڑیو ں کے پارکنگ کی سہولت موجود تھا۔
18ستمبر 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے دوطرفہ تجارتی حجم بڑھانے کے لئے طور خم گیٹ کو چوبیس گھنٹے کھلارکھنے کا باقاعدہ افتتاح کردیاتھا تاہم اُس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔