سدھیر احمد آفریدی: سینئر صحافی اور تجزیہ کار
مئی 2018 میں قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختون خواہ میں ضم کر دیا گیا اور سچی بات یہ ہے کہ انضمام کا یہ آئینی عمل جنگی بنیادوں پر اتوار کے روز پایہ تکمیل کو پہنچا دیا گیا اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قبائلی عوام کی اکثریت نے انضمام کی حمایت کی اور ان تعلیم یافتہ اور سیاسی لوگوں کا خیال تھا کہ فاٹا کی حیثیت ختم کرنے سے وہ قومی دھارے میں شامل ہونگے اور انضمام کے ساتھ ہی نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائے گی اور یہاں ہر طرف خوشحالی، تعمیر و ترقی کا ایک نہ روکنے والا عمل شروع ہوگا اور ان کا خیال تھا کہ ایف سی آر کے خاتمے اور صوبہ خیبر پختون خواہ کا حصہ بن جاتے ہی قبائلی نوجوانوں کو روزگار ملیگا۔
یہاں کارخانے لگ جائیں گے اور لوگوں کو روزگار اور کاروبار کے اتنے مواقع ملیں گے کہ یہاں پھر کبھی غربت، جہالت اور بیروزگاری پلٹ کر نہیں دیکھے گی لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کو لینے کے دینے پڑینگے تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ قبائلی عوام مابعد انضمام کی صورتحال اور اس حوالے سے حکومتی اقدامات سے خوش اور مطمئن نہیں اور اکثریتی قبائلی عوام عدالت کے مقابلے میں روائتی قبائلی جرگے کو ترجیح اور اہمیت دیتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جرگے کے فیصلے سستے اور تیز ترین ہوتے ہیں جبکہ عدالت میں انصاف تاخیر سے اور مہنگا ملتا ہے۔
سب سے بڑی شکایت یہ ہو رہی ہے کہ مئی 2018 میں انضمام کے وقت جو وعدے حکومت نے کئے تھے اور جس دس سالہ ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا اس کی عشر و عشیر بھی کچھ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کی گئی ہے اور برسرزمین کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آرہا جہاں تک نوکریوں کا تعلق ہے تو اس پر بھی تعلیم یافتہ قبائلی نوجوان اعتراض کرتے ہیں کہ ان نوکریوں میں غیر قبائلی افراد کو ترجیح دی جاتی ہے لہذا اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سرکاری نوکریوں میں تعلیم یافتہ قبائلی مقامی افراد کو ترجیح دی جائے اور میرٹ کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
دوسری بات یہ کہ زیادہ تر قبائلی نوجوان عمر کی حد پار کر رہے ہیں اس لئے نئی بھرتیوں میں عمر کے حوالے سے خاص رعایت دینی چاہیے تاکہ ڈگری اور ڈپلومہ ہولڈرز نوجوان ضائع نہ ہو سکے یہ درست ہے کہ ایف سی آر کی جگہ ایف آئی آر کا نیا نظام فوری طور پر پورے آب و تاب کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتا اور اس عمل کو مکمل ہونے میں وقت لگ سکتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ حکومت نے انضمام کے حوالے سے سب کچھ برق رفتاری کے ساتھ کیا جس کے لئے پہلے سے کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔
جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لوگ پولیٹیکل انتظامیہ سے ملنے والے مراعات اور سہولیات سے بھی محروم ہو گئے اور صورتحال یہ بن گئی ہے کہ پانی کی بوند بوند کو ترسنے والے قبائلی عوام غربت کی وجہ سے ایک ٹینکر پانی بھی نہیں خرید سکتے لوگوں نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ حکومت ان کو مجرموں کی نظر سے دیکھ کر پہلے پولیس تھانوں اور جیلوں کی تعمیر میں سرگرم عمل نظر آئی اگرچہ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ پہلے ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے ان کی بجلی، پانی، ہسپتال، مواصلات اور سڑکوں کے نظام کو درست کیا جائے اور بتدریج ان کو شعور دلا کر اپیل، دلیل اور وکیل سے اشنا کریں۔
اس مایوس کن صورتحال کو دیکھ کر انضمام مخالف عناصر تیزی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو بڑھا اور پھیلا رہے ہیں اور یہی نقطہ صراحت کے ساتھ بیان کر رہے ہیں کہ دیکھ لیا انضمام کے ثمرات سابق ایم این اے عرف ملی مشر الحاج شاہ جی گل آفریدی انضمام کا کریڈٹ لیتے ہوئے تھکھتے نہیں تھے کہ انہوں نے انضمام کرکے تکمیل پاکستان کے ادھورے ایجنڈے کو مکمل کر دیا ہے جس کے نتیجے میں قبائلی عوام کو وہی سہولیات میسر ہونگی جو نواز شریف اور آصف علی زرداری کے بچوں کو حاصل ہیں۔
اب جبکہ قبائلی عوام انضمام کے ثمرات نہ ملنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں اور ہر طرف انضمام مخالف آوازیں سنائی دے رہی ہیں تو ملی مشر کے چھوٹے بھائی المعروف فخر خیبر سینیٹر تاج محمد آفریدی والہانہ انداز میں انضمام مخالف تحریک کا ہراول سپاہی دکھائی دے رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سینیٹر تاج محمد آفریدی نے ابتداء میں انضمام کی مخالفت کر کے اس کو قبائلی روایات سے متصادم قرار دیا تھا میڈیا رپورٹس کے مطابق تمام قبائلی اضلاع میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
کہیں مذہبی جماعتیں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تحریک چلا رہی ہیں تو کہیں سابق خاصہ دار فورس اپنے 22 نکات کے ساتھ دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں میں مشغول ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ حکومت نے ان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے اس لئے وہ بھی مکمل طور پر انضمام مخالف تحریک کا حصہ بن سکتی ہے اور یہی حال بعض سیاسی جماعتوں کے مقامی قائدین کا بھی ہے جو کھلے عام انضمام کی مخالفت کرنے نکلے ہیں جبکہ میڈیا کے قبائلی نمائندوں کی اکثریت بھی انضمام سے زیادہ سابق پولیٹیکل انتظامیہ کو بہتر سمجھتی ہے۔
اکثر قبائلی دانشور سوال اٹھاتے ہیں کہ جو سو ایک سو بیس ارب روپے سالانہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اس رقم میں سے کتنے پیسے قبائلی علاقوں میں تعمیر و ترقی پر خرچ کئے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں کیا تبدیلی محسوس کی گئی ہے اگر حکومت انضمام کے اس عمل کو مکمل کرنے میں سنجیدہ ہے اور چاہتی ہے کہ قبائلی عوام کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی آئے تو انضمام کی طرح برق رفتاری کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کو شروع کریں۔
قبائلی عوام کو بھی زندگی کی بنیادی سہولیات دی جائے اور اُن کے حقوق کا خاص خیال رکھا جائے اور یہاں جس تیزی رفتاری کے ساتھ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اس پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات کریں تاکہ قبائلی عوام کو عملاً محسوس ہو کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے اور اگر قبائلی عوام کی آواز نہیں سنی گئی تو انضمام بے مقصد ثابت ہو سکتا ہے جس کو ریورس کرنے کے لئے ہر طرف سے آواز سنائی دے گی۔