اسلام گل آفریدی
مرکزی حکومت نے مری ایکسپریس وے سے ملحقہ علاقہ موضع لوکوٹ، صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہری پور اور سندھ کے ضلع ٹھٹہ کا علاقہ میرپور ساکرو میں بھنگ کے کاشت کا فیصلہ کرلیا ہے جس کو ادویات بنانے کے لئے استعمال کیا جائیگا۔ بھنگ کے بہترین فصل کے لئے ضم اضلاع میں ضلع کے خیبر کے سیاحتی علاقہ وادی تیراہ اور اورکزئی شہرت رکھتا ہے تاہم مقامی آبادی صرف اس سے صرف چرس تیارکر کے آمد ن حاصل کرلیتے ہیں۔
حکومت کے اس فیصلے کے بارے میں تیراہ اور اورکزئی کے عوام نے اعتراضات اُٹھائے اور موقف اپنایا ہے کہ بھنگ کے قانونی کاشت کی اجازت پہلے فرصت میں اُن ہی کے علاقوں میں ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہاں پر لوگوں کے آمد ن کا واحد ذریعہ بھنگ کا فصل ہے۔
وادی تیراہ برقمبر خیل کے سترسالہ ستوری گل آفریدی کے آمد ن کا واحد ذریعہ 2 ایکڑزمین میں بھنگ کی کاشت ہے تاہم اُن کو معلوم نہیں کہ کب سے انکی کاشت علاقے میں ہورہاہے۔ اُنہوں نے بھنگ کے قانونی کاشت کے حکومتی فیصلے کے بارے میں کہا کہ اس میں صرف چند لوگوں کو فائدہ ہوگا جن کو پرمٹ جاری کیاجائیگا۔ اُن کے بقول جنرل ایوب نے بڑی شہروں میں افیون کے خریدکے لئے تاجر وں کو اجازت نامہ جاری کردیا گیا تھا اور وہ حکومت کے مقرر کردہ نرخ کے باوجود بھی کاشتکاروں سے اپنے مرضی سے افیون خرید لیتا تھا۔
پاکستان میں بھنگ کے کاشت کے عمل کی نگرانی کراچی یونیورسٹی میں قائم ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) کرتا ہے۔مرکزی حکومت بھنگ سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کا تخمینہ ایک ارب ڈالر سالانہ بتایا گیا تا ہم ماہرنباتات حکومت کے اس اعلان ساتھ متفق نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ بھنگ کے پودے کو مناسب آب ہوا کی ضرورت ہوتا ہے جس کے بنیاد پر فائدہ حاصل کیا جاسکتاہے۔ بھنگ کے پودے سے درکار کیمیکلز کا حصول تب ممکن ہے جب اس فصل کو مناسب آب ہوا دستیاب ہو۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ نباتات (باٹنی) میں اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لعل بادشاہ محسو کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے بھنگ کے کاشت کے لئے جن علاقوں کی نشاندہی کی ہے تو وہاں کی آب ہوا اس فصل کے لئے مناسب اور ادویات میں درکار کیمیکل کے اعلیٰ کوالٹی کا حصول ممکن نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ بھنگ ایسا پود ا ہے جس کے کاشت ٹمپریٹ زون میں بہتر نتائج دے سکتاہے جس کا مطلب ہے کہ سطح سمندر سے کم ازکم چار ہزار فٹ بلندی پرواقع سرد علاقوں میں کیاجائے جیسے خیبر کے وادی تیراہ، اورکزئی، وزیر ستان اور دیر اور سوات کے کچھ علاقوں کا آب یہی ضروریات پورا کرتا ہے۔
قبائلی اضلاع پچھلے سات دیہائیوں سے احساس محرومی کا شکار ہے اور وزیر اعظم عمران خان کے بھنگ کے کاشت میں ان علاقوں کو شامل نہ کرنا مقامی نوجوان نسل ان محرومیوں کا تسلسل تصور کرتے ہیں۔وادی تیراہ شلوبر کے سیاسی اور سماجی کارکن محمد صدیق آفریدی نے حکومت کے بھنگ کے قانونی کاشت والے علاقوں میں تیراہ کو شامل نہ کرنا مایوس کن قرار دیا۔
اُنہوں نے کہا کہ پچھلے کئی دہائیوں علاقے میں روزگار،تعلیم اور زندگی کے دوسرے ضروریات نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ 9/11کے بعد علاقے میں بدامنی اور شدت پسندی کے وجہ سے غربت کے شرح میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ بھنگ سے صرف چرس کے حصول مجبوری کے تحت کیا جاتا ہے کیونکہ حکومتی سطح پر اس کے مثبت استعمال کے حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا جس کے بنیاد پر کاشتکار کو بہتر معاوضہ مل سکے۔
محکمہ زراعت خیبر کے مطابق وادی تیراہ میں 32ہزار ایکڑزمین زیر کاشت ہے جن میں 80فیصد پر بھنگ، چھ فیصد پر سبزی جات جبکہ باقی پر اجناس اور باغات موجود ہے۔ ادارے کے مطابق بھنگ کے کاشت مئی اور جون میں کیاجاتا ہے جبکہ نومبر اور دسمبر میں کٹائی کے بعد فصل کو برف باری اور بارشوں کے لئے رکھا جاتا ہے تاکہ اُن سے اچھے معیار کے چرس حاصل کیا جاسکے.
ڈاکٹر لعل بادشاہ محسود کے بقول بھنگ کے کئی اقسام دنیا میں پائے جاتے ہیں جن میں سب سے اہم Cannabis sativa ہے جن کا باقاعدہ کاشت ہوتا ہے۔ اُنہو ں نے کہا کہ بھنگ میں موجود چا ر سو کیمیکلز میں دو سو اانتہائی اہم ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ سڑک کے کنارے اُگانے والے بھنگ میں مطلوبہ مقدار کے کیمکل موجود نہیں ہوتا جس کے بنیاد ی وجہ نامناسب آب ہواور عدم دیکھ بھال ہے۔
کرونا کے وبائی صورتحال میں ملکی اور بین الاقومی سطح پر لاک ڈاؤن کے وجہ سے چرس کے کاروبار کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ کئی کاشتکاروں اور سمگلروں نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایاکہ موجودہ وقت میں اعلیٰ قسم کے چرس پندرہ سے اٹھارہ ہزار تک فروخت ہوتا ہے جبکہ پہلے اس کی قیمت چالیس ہزار تھا۔ اُن کے بقول موجودہ وقت میں پارہ چنار اور بلوچستان کے راستے سے بڑے پیمانے میں افغانستان سے چرس پاکستان سمگل کیاجاتا ہے جس کے وجہ تیراہ اور اورکزئی کے چر س کے مارکیٹ بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔
ستوری گل کا کہنا ہے کہ اگر حکومت تیراہ اور اورکزئی میں بھنگ کے کاشت کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے تو اس سے نہ صرف مقامی آبادی کے معاشی ذرائع کو قانونی تحفظ مل جائیگا کیونکہ علاقے کے عوام کے کمائی زرعی شعبے کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ایک تو چر س کی قیمتیں گرنے سے شتکاروں کے مسائل میں اضافہ ہوچکا ہیں جبکہ دوسرے طرف لوگوں کو اندیشہ ہے کہ حکومت علاقے میں بھنگ کے کاشت پر پابندی عائد نہ کریں۔
ڈاکٹر لعل بادشاہ محسود نے کہا کہ حکومت کو نہ صرف بھنگ بلکہ پوست کے کاشت جس سے افیون تیار کیا جاتا ہے کہ بھی قانونی اجازت ہونا چاہئے کیونکہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ پاکستان کے ہمسایہ ممالک چین اور ہندوستان اس فصل سے سالانہ اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ضم اضلا ع میں کاشت کی جانے والے غیر قانونی بھنگ اور پوست صرف منشیات بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف ملک کی نوجوان نسل تباہ ہورہاہے بلکہ بیرونی دنیا اسمگلنگ کرکے ملک کے بدنامی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر مقامی کاشتکاروں کو بھنگ اور پوست کی فصل سرکاری طور پر اچھے داموں خریدنے کے ساتھ اس فصل کی دیکھ بھال کے لئے بھی مناسب اقدامات کی جائے تا کہ ان سے منشیات تیار ہونے کے بجائے ادویات میں اس کا استعمال کیا جاسکیں جس سے بڑا مالی فائد ہ حاصل ہوسکتا ہے۔