اسلام گل آفریدی
آٹھ ستمبر منگل کے رات کوپشاور علاقے پلوسی میں نامعلوم افراد کے فائرنگ سے ایک خواجہ سراء ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہوچکا ہے۔ واقعے کے خلاف پولیس کے مدعیت میں مقدمہ درج کردیا گیا ہے۔10 ستمبر کو ایک دوسرے واقعے میں ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والا اُنیس سالہ خواجہ سراء محمدسعد کو اپنے بھائی نے گولی مارکر قتل کردیا ہے۔
پشاور واقعے کی ایف آئی آر میں قتل اور اقدام قتل کے دفعات شامل کی گئیں۔ تھانہ تہکال پایان کے ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ رات دیر گئے اُن کو اطلاع ملی کہ خیبرتدریسی ہسپتال یعنی (کے ٹی ایچ) کے کیجولٹی وارڈ میں خواجہ سراء شکیل عرف گل پانڑہ کے گولیوں سے چلنی لاش پڑا ہے جبکہ ایمرجنسی وارڈ میں دوسرے خواجہ سراء طارق عرف چاہت شدید زخمی اور بہوشی کے حالات میں زیر علاج ہے۔اُنہوں نے بتایا کہ واقعے کا باقاعدہ ایف آئی آر درج کردیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں خواجہ سراء برادری کے صدر آرزو خان نے اس واقعے کو انتہائی افسوناک قرار دیا اور کہاکہ خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہاہے جوکہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ اُن کے بقول گل پانڑہ اور چاہت کو پہلے سے کسی قسم کے دھمکیاں نہیں ملی تھی۔اُنہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لئے سرکاری سطح پر کچھ نہیں کیاجارہاہے اور خود خواجہ سراء برادری میں بھی کچھ لوگ ایسے جس کے وجہ سے عام لوگ بغیر کسی خوف کے اُن کو تشدد کا نشانہ بنتے ہیں جن میں کئی افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہیں۔
پولیس کے ابتدائی تحقیقات کے مطابق چند خواجہ سراء پلوسی کے محلہ مصلی گھڑی میں مقامی نوجوان اذان عماد کے مہندی کے سلسلے میں منعقدہ ڈی جی پروگرام میں شریک ہوئے تھے اور پروگرام ختم ہونے کے بعد جب یہ لوگ اپنے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو اس دوران نامعلوم فرد یا افراد نے پستول سے فائرنگ کرکے گل پانڑہ اور چاہت کو شدید زخمی کردیا۔ اُن کے بقول فوری طبی مدد کے لئے دونوں کو خیبرتدریسی ہستپال منتقل کیا جارہاتھا کہ راستے ہی میں گل پانڑہ چل بسی جبکہ چاہت کو شدید زخمی حالات میں ہسپتال پہنچا دیا گیاہے۔ہسپتال ذرائع کے مطابق چاہت کے اب تک دو آپریشن ہوچکے ہیں تاہم اب اُن بھی حالات نازک ہے۔
تشدد کا ایک دوسرا ضلع صوابی میں پیش آیا جہاں پر مقامی پولیس کے مطابق خواجہ سرا محمد سعد کو اُن کے چودہ سالہ بھائی نے اس وجہ سے فائرنگ کرکے نشانہ بنایا کہ اُنہوں نے راولپنڈی میں ایک ڈانس پروگرام میں شرکت کیا تھا جس پر وہ ناراض تھا اور غیر ت کے نام پر اُس کو قتل کردیا۔
خیبر پختونخوا سول سوسائٹی کے صدر اور سماجی کار کن تیمور کمال کا کہنا ہے کہ 2015سے اب تک 70خواجہ سراء مختلف واقعات میں ہلاک کردئیے گئے جبکہ سینکڑوں کے تعداد میں تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔اُنہوں نے کہاکہ کمزور ایف آئی آر، ناقص تفشیشی عمل اور متاثرخواجہ سراء کے خاندان کے دیت کے وصولی اور راضی ناموں کے وجہ سے آج تک کسی واقعے میں ملوث ملزم کو سزا نہیں ہو اہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ خواجہ سراؤں کے تشدد کے واقعات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
آرزو خان نے اس تاثر کو رد کردیا کہ خواجہ سراء کے ساتھ ہونے والے پر تشدد واقعات ان کے کئی لوگوں سے تعلق اُستور کرنے اور بعد میں اختلافات سامنے کے بعد نتیجے میں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات میں خواجہ سراؤں کے خاندان، دوست، جرائم پیشہ افراد، بھتہ خور اور بدمعاش لوگ ملوث پائے گئے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ پولیس کے اعلیٰ حکام نے ہر موقع پر خواجہ سرؤں کے مسائل سنے اور اُس کے حل کرنے کی کوشش کی ہے تاہم کچھ ایسے اقدامات ہے جس پر کام کرکے ان لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔
خواجہ سراؤں کو تحفظ دینے کے لئے اپریل 2018میں سینٹ اور قومی اسمبلی سے” ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 ” باقاعدہ منظور ہونے کے بعد قانون کا حصہ تو بن گیا تاہم اس حوالے سے مزید اقدامات میں چاروں صوبے ناکام رہے ہیں۔