جمیل اقبال: سینئر صحافی اور تجزیہ کار
پاکستان مسلم لیگ کے لندن میں بیٹھے سربراہ نواز شریف، قومی اسمبلی اور کشمیر کمیٹی چھین جانے کی وجہ سے تاحال پریشان مولانا فضل الرحمان اور والد کی ضمانت اور فرد جرم ختم ہونے کے منتظر بلاول زرداری کے درمیان ہونے والے حالیہ رابطے ملکی سیاست میں ایک اہم پیشرفت ہیں۔ اہم سنگ میل بھی ہے اور آنے والے دنوں میں پاکستان کی سیاست کے حوالے سے اہم پیشن گوئیوں کا ذریعہ اور وسیلہ بھی بتائے جارہےہیں۔
گو کہ بعض سیاسی پنڈت ان رابطوں کی تعبیریں ڈھونڈنے کے حوالے سے گو مگوں کا شکار ہیں لیکن ہم جیسے صحافی ابھی بھی وثوق سے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ عمران حکومت سے نالاں لوگ کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار نہ ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ فضل الرحمان، نواز شریف اور آصف ذرداری جیسے زیرک سیاستدان کبھی بھی عمران خان کو سیاسی شہید بننے نہیں دیں گے۔
واقفان حال کہتے ہیں کے اپنے دوستوں کی نااہلی یا غیر سنجیدہ رویّے اور بعض دیگر قوتوں کی جانب سے حد سے زیادہ مداخلت سے عمران خان پہلے ہی پریشان ہیں انہوں نے تو رواں سال 13 مارچ کو وزارت عظمی سے استعفی بھی دیا تھا جس کا بہت کم لوگوں کو پتہ ہے اور میڈیا بھی اس خبر کو نشر کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔
لاک ڈاؤن کے حوالے سے جب وزیراعظم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تو انہوں نے استعفی دے دیا۔ جب وزیراعظم کا استعفی صدر ڈاکٹر عارف علوی کے پاس پہنچا تو انہوں نے فوری طور پر وزیراعظم سے ملاقات کی اور اس وقت کے حالات کے مطابق باہمی گفت وشنید کے بعد فیصلہ ہوا کے وہ استعفی واپس لے لیں کیونکہ اس وقت کرونا وائرس پاکستان پہنچ چکا تھا اور ماہرین صحت آنے والے دنوں بلکہ مہینوں کو بہت خطرناک قرار دے رہے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کا جارحانہ مزاج اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت خود اقتدار سے الگ ہوسکتے ہیں اور ملک کی موجودہ صورتحال بھی چونکہ عمران خان کی حکومت سے کنٹرول نہیں کرپارہی اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسی صورتحال بن جائے کہ ان ہاؤس تبدیلی یا نئے انتخابات ہوجائے اور وہ عوام کو کہے کہ ملکی معیشت استحکام کی طرف جارہی تھی لیکن اپوزیشن نے انہیں کام کرنے نہیں دیا۔
دوسری جانب چونکہ اپوزیشن میں مولانا فضل الرحمان جیسے لوگ شامل ہیں جو ممبر قومی اسمبلی نہ ہونے کے باوجود اس وقت اپوزیشن کی قیادت کررہے ہیں وہ کسی بھی قیمت پر عمران خان کو سیاسی شہید نہیں بننے دیں گے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان مذید ایکسپوز ہوں اور لوگوں کو پتہ چلے کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا ان کا فیصلہ غلط تھا۔ دوسری طرف نواز شریف کو واپس لانے کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں اور بعض قوتیں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے حوالے سے نواز شریف کو آمادہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں لیکن نواز شریف کا مطالبہ ہے کہ کہ وہ اس وقت تک اس نظام کا حصہ نہیں بننے کے لئے تیار نہیں ہیں جب تک انہیں سزا دلوانے والے سر عام ان سے معافی نہیں مانگیں اور پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کریں گے کہ نواز شریف کے خلاف بننے والے مقدمات غلط تھے۔
اس صورتحال میں بلاول بھٹو ذرداری یقینی طور پر اپنی توجہ سندھ کی بجائے پورے پاکستان پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور آصف علی زرداری 2023 میں بلاول کو وزیراعظم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن سندھ کی موجودہ صورتحال اور خاص طور پر کراچی کے ڈوب جانے سے ان کی سیاست بھی تقریباً ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کی جانب سے کراچی کے معاملات حل کرنے کی طرف سنجیدہ کوششوں کا فائدہ بھی پی ٹی آئی کو ہوگا۔
سیاسی حوالے سے میرے معلومات بتا رہی ہیں کہ بنی گالہ کے معاملات بھی ٹھیک نہیں ہیں گذشتہ دنوں شاہ محمود قریشی کی جانب سے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو تھپڑ مارنے کی خبریں بھی حکومتی پریشانی میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں اگرچہ سیاسی طور پر یا سرکاری ذرائع سے اس حوالے سے خاموشی ہے لیکن مختلف ذرائع سے ہونے والی تصدیق بتا رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ جہانگیر ترین کو کلیٌر اور واپس لانے کی کوشیشوں پر بھی نیب اور اپوزیشن کی نظر ہے اور گذشتہ دنوں دنیا نیوز کے پروگرام میں کامران خان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے عمران خان کی جانب سے جہانگیر ترین کے لئے سافٹ کارنر رکھے جانے کے تاثر نے حالات کو مذید گھمبیر بنا دیا ہے۔
اگر جہانگیر ترین واپس آکر کسی بھی حوالے سے نظام کو حصہ بنتے ہیں تو یہ پی ٹی آئی کی بدنامی میں اضافے کا باعث بنے گی۔ اگر چہ اس انٹرویو کے بعد سینئر صحافی اور اہل علم کامران خان کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ بعض تو سنگین الزامات لگا کر ان کے سوال پوچھنے کے انداز کو کسی سکرپٹ کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ ان حالات میں عثمان بردار اور محمود خان کے حوالے سے بنی گالہ میں فیصلہ نہ ہونا یقینی طور پر عوامی پریشانی میں اضافے کا باعث بن رہاہے۔خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے عوام دو سال گزر جانے کے باوجود اب بھی حقیقی تبدیلی دیکھنے کے منتظر ہیں جو ان دو وزرائے اعلی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس حوالے سے مذید تاخیر پی ٹی آئی سے نالاں ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتی ہے ۔
گزارش یہ ہے کہ عمران خان اپنے اس پاس بیٹھے افراد کے سحر سے نکل کر پاکستان کے حوالے سے سوچنے اور فیصلہ سازی کی کوشش کریں پاکستان کے عوام سیاسی طور پر اتنے آگاہ ہوچکے ہیں کہ وہ مصلحتوں کا شکار نہیں ہوسکتے۔ اور اس بات کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کہ انہوں نے عوام میں سیاسی شعور اس حد تک اجاگر کیا ہےکہ عوام نے یقین کرلیا ہے کہ مہنگائی بڑھنے کا مطلب وزیراعظم چور ہے۔ لوگ سیاسی اور فکری طور پر بالغ ہوچکے ہیں اپنے اچھے برے اور حکمرانوں کی بیان بازیوں کو بھانپ سکتے ہیں ان حالت میں کامیاب سیاستدان وہی ہوگا جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کی بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے۔