اسلام گل آفریدی
پچھلے پانچ ہفتوں سے ضلع خیبر کے تاریخی مقام باب خیبر پر وادی تیراہ کے علاقے راجگال سے بے گھر آفریدی قبائل کے کوکی خیل شاخ کے متاثر ین اپنے گھروں کوباعزت واپسی کے لئے سیاسی اتحاد کا احتجاج دھرنا جاری ہے۔ ہزاروں کے تعداد میں بے گھر خاندانوں کے مشکلات کا اندازہ اس بات لگایاجاسکتاہے کہ عید الاضحی کے دنوں میں بھی شرکاء احتجاجی کیمپ میں موجود تھے۔
اپنے مطالبات کیلئے جاری احتجاجی دھرنے کے حوالے سے سیاسی اتحاد کے صدر زرغون شاہ آفریدی نے کہا کہ وادی تیرا ہ راجگال سے بے گھر افراد دس بارہ سالوں سے بہت مشکل زندگی گزاررہے ہیں اور حکومتی اداروں کے باربار یقین دہانیوں کے باوجود بھی ان لوگوں کے باعزت واپسی کا عمل شروع نہ ہوسکا۔ اُنہوں نے کہاکہ اس سے پہلے بھی بے گھر افراد کے حقوق کے کمزور آوازیں اُٹھائے گئے تاہم مختلف مسائل کے بناء پر اُن کو خاموش کردئیے گئے لیکن اس بار علاقے کے تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ بے گھر افراد کے حقوق کے لئے موثر تحریک چلاجائیگا اور یہ احتجاجی دھرنا اب چھٹے ہفتے میں داخل ہوچکا ہے۔
دیگر قبائلی اضلاع کی طرح ضلع خیبر کے وادی تیراہ راجگال و دیگر علاقوں میں رہائش پزیر آفریدی قبیلے کے ذیلی شاخ کوکی خیل کے ہزاروں خاندانوں نے علاقے میں دہشت گردوں کے اثر ورسوخ میں اضافے اوراُن کے خلاف فوجی آپریشنزکے نتیجے میں 2012میں مکمل طورپر علاقہ خالی کردیا گیا تھا، بے سروسامانی کے حالت میں گھر بار چھوڑ کر متاثرین نے جمرود اور پشاور میں رشتہ داروں یا کرایوں کے مکانات میں رہائش اختیار کرلیا۔کئی سال انتظار اور باعزت واپسی کے وعدیں وفا نہ ہونے کے وجہ سے متاثرین کے مسائل میں کافی اضافہ ہوا۔
ملک عصمت اللہ کوکی خیل بھی وادی تیراہ راجگال کا رہائشی ہے اور جاری دھرنے میں اپنے علاقے کے متاثرین کی نمائندگی کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے لئے مقامی لوگوں نے سیکورٹی اداروں کے آمدکو خوش آمدید کہا اور پہلے فرصت میں اپنے ہی مکانات رضاکارانہ طور خالی کرادیئے جبکہ کچھ دن بعد اُن ہی کے حکم پر پورا علاقہ خالی کردیا گیا لیکن بدقسمتی سے نہ تو ان لوگوں کی باقاعدہ اور شفاف رجسٹریشن ہوئی اور نہ امدادی پیکچ دیا گیا۔ اُن کے بقول بے گھر افراد ہر صورت اپنے علاقے کو واپس جانا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ ہرقیمت چکانے کے لئے تیار ہے۔
ماضی میں بھی کئی دفعہ کوکی خیل کے بے گھر افراد کے واپسی کے لئے جمرود اور پشاور میں احتجاجی مظاہریں ہوچکے ہیں لیکن اندرونی اختلافات کے بناء پر کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جاری سیاسی اتحاد کے دھرنے سے بے گھر افراد کو کیا اُمیدیں وابستہ ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ملک عصمت اللہ نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض سرکاری اداروں کے ملی بھگت سے غیر مقامی اور غیر مقبول مفاد پرست ملکان کو استعمال کرکے کوکی خیل کے بے گھر افراد کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچا یا۔اُنہوں نے کہاکہ سیاسی دھرنے کے کوششوں سے بے گھر افراد مطمئن ہے اور یہی اُمید کی آخری کرن ہے اگر یہ کوشش بھی ناکام ہوجاتا ہے توپھر کبھی بھی ان لوگوں کے مسائل حل نہیں ہونگے۔
راجگال میں طویل عرصے سے خیبر فور آپریشن کے تحت سیکورٹی فورسز کے کاروائیاں جاری ہیں تاہم اب بھی کئی علاقے دہشت گردوں سے پاک قرار نہیں دیئے گئے۔ 23جولائی کو وادی تیراہ مہربان کلی ناکئی کے علاقہ میں سڑک کے کنارے بم دھماکہ ہوا جس میں بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکار معجزانہ طور پر بچ گئے۔واقعے کے بعد باڑہ تیراہ روڈ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر بند کردیا گیا تھا۔
ملک عصمت اللہ کے مطابق کوکی خیل کے علاقے میں تمام گھر مسمار ہوچکے ہیں جبکہ مقامی آبادی کے آمدن کے ذریعہ زراعت مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ علاقے میں جنگلات کے بے دریغ کٹائی جاری ہے اور دوسرے طرف ملک دین خیل اور قمبر خیل کے لوگ مقامی لوگوں کی زمین پر قبضے اور آبادی کی کوشش میں مصروف ہے۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ یہ سب کچھ وہاں پر تعینات حکومتی اداروں کے موجوگی میں ہوتا ہے۔
مہربان میلہ جو کہ علاقے کے ایک بڑا تجارتی مرکز تھا لیکن موجودہ وقت وہاں پر تباہ شدہ عمارتوں کے ملبہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ علاقے میں متاثرین کا کہنا ہے مذکورہ بازار میں کروڑوں روپوں مالیت کے لکڑی موجود تھے جس کو سیاسی اتحاد نے مستقبل میں اپنے مطالبات کے لئے پانچ اگست سے نئے پلان پر کام شروع کرنے کا عندیہ دیا اور موقف اپنایا کہ اس میں علاقے کے تمام افراد کو منظم کیا جائیگا اور جلد پشاور میں گورنر اور یاصوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
کیوں طویل عرصے بعد بھی لوگوں کے واپسی ممکن نہ ہوئی؟
تیراہ کوکی خیل کے بے گھر افراد کے اپنے علاقوں سے طویل عرصے تک مشکل زندگی گزرنے کے کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم سیاسی اور انتظامی مسائل ہیں۔ تیراہ راجگال قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 44 میں جہاں سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اقبال آفریدی ممبر قومی اسمبلی اور صوبائی حلقہ پی کے 107کے علاقہ ہے اور یہاں سے بھی حکمران جماعت کا ممبر صوبائی اسمبلی حاجی شفیق آفریدی ہے۔ تمام بے گھر افراد تحصیل جمرود میں رہائش پزیر ہوئے کیونکہ ان اپنے آبائی جائیداد یں اور رشتہ یہاں پر موجود ہے۔
یہی علاقہ قومی اسمبلی حلقہ این اے43 ہے جہاں سے پاکستان تحریک انصاف رہنماء اور وفاقی مذہبی امور نورالحق قادری منتخب نمائندہ ہے اور صوبائی حلقہ پی کے 106کے بلاول آفریدی ممبر ہے۔اس پوری تناظر کو مد نظرمیں موجودہ اور سابق پارلیمنٹرین نے یہ بہانا بنا کر ان لوگوں کے حقوق کا قانونی جنگ نہیں لڑا کہ یہ اُن کا حلقہ ارباب نہیں ہے۔
زرغون شاہ آفریدی نے کہا اب تک علاقے کا کوئی پارلیمنٹرین احتجاجی کیمپ نہیں آیالیکن یہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے پوری ضلع کے گیارہ ممبران پارلیمنٹرین اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔اُنہوں نے کہا کہ پچھلے حکومت کے پانچ اور موجودہ حکومت کے دوسال اس میں گزر گئے کہ ایوانوں میں موجود کو ئی بندہ اس کو اپنا ذمہ داری ہی نہیں سمجھتا ہے۔
راجگال سے بے گھرافراد کے اصل تعداد
احتجاجی دھرنے میں شریک متاثرین راجگال کے مطابق قبیلہ کوکی خیل کا علاقہ تقریبا 120کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جوکہ مغرب میں افغانستان کے کوہ سفید (مورگاہ) کے سرحد تک جاپہنچاتا ہے اور یہاں پر 35سے چالیس ہزار خاندان آباد تھے۔
قوم کوکی خیل کے حدود تیراہ کے علاقے مہربان سے شروع ہو تا ہے جہاں پر تپہ سکندرخیل، خورادرہ کے علاقے میں ابدل خیل اور اس کے ساتھ سکندر خیل بھی آباد ہیں۔ اس کے علاوہ سرہ ویلہ، راجگال، برکنڈؤ، خربہ، کندوغریبی اور کوہ سفید (مورگہ) کے دامن تک یہی لوگ رہائش پزیر تھے۔
2012میں مذکورہ علاقوں سے بے گھر ہونے والے افراد کا صحیح اور بروقت رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے بھی کافی مسائل پیداہوئے۔ مقامی انتظامیہ نے 260، الخدمت فاونڈیشن نے18سوجبکہ فاٹا ڈیز اسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے)نے 1403خاندانوں کے رجسٹریشن کرائی۔ادارے کے مطابق راجگال کے تمام رجسٹرڈ خاندانو ں کو نقد رقم کے ساتھ دیگر ضروری اشیاء بھی مہیا کئے جاچکے ہیں اورادارے کے ریکارڈ کے مطابق تمام بے گھر افرادکو اپنے علاقوں میں واپس بھیج دئیے گئے ہیں۔
بعض متاثرین نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایاکہ مقامی انتظامیہ نے رجسٹریشن میں تصدیق کے لئے ایسے ملکان کو ذمہ داریاں منسوب دی گئی کہ جن کا تیراہ نہ گھر تھا اور نہ خاندان، اس وجہ سے اپنے خاندان اوررشتہ داروں نام متاثرین میں درج کرکے مراعات حاصل کرلی ہے۔
پارلیمنٹرین کا نقطہ نظر
ممبرقومی اسمبلی محمد ا قبال آفریدی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی عوام نے ملک خاطر بہت نقصان اُٹھایا ہے لیکن کئی سال گزرجانے کے باوجود آج بھی ضلع خیبر کے مختلف علاقوں کے لوگ اپنے علاقوں کو واپس نہیں جاچکے ہیں اور مشکل کے زندگی گزاررہے ہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ چند دن پہلے اسمبلی اجلاس میں تمام قبائلی اضلاع اور خصوصاً راجگل کے بے گھر خاندانوں کے باعزت واپسی کے لئے بات ہوئی جس کے لئے حکومت نے باقاعدہ طور کمیٹی بنانے کا اعلان ہوا جبکہ مستقبل میں وزیر اعظم اور سپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ ضم اضلاع کے دیگر ممبران کے وفد کو لیکر متاثرین کے مسائل کے جلد حل کے لئے بات چیت کرینگے۔
پی کے 106سے ممبر صوبائی اسمبلی بلاول آفریدی کے قریبی ذرائع کے مطابق متاثرین کے حقوق کے لئے جاری احتجاجی دھرنے میں اس وجہ سے شرکت نہیں کیا کہ جاری تحریک کو چند سیاسی مفادپرستوں نے اپنے سیاسی سکورنگ کے استعمال کا الزام لگایا تاہم اُن کے بقول تمام بے گھر افراد کے باعزت واپسی کے لئے مختلف سطح پر کوششیں جاری ہیں۔پیر نورالحق قادری کے موقف جانے کی کوشش کیاگیا لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔